Maktaba Wahhabi

375 - 566
طَلِیْقٌ بِرَأیِ الْعَیْنِ وَہُوَ أَسِیْرُ عَلِیْلٌ عَلٰی قُطْبٍ الْحَلَاکِ یَدُوْرُ وَمَیْتٌ یُرٰی فِي صُوْرَۃِ الْحَیِّ غَادِیًا وَلَیْسَں لَہٗ حَتَّی النُّشُوْرِ نُشُوْرُ أَخُوْ غَمَرَاتٍ ضَاعَ فِیْہِنَّ قَلْبَہٗ فَلَیْسَ لَہٗ حَتَّی الْمَمَاتِ حُضوُرَ ’’ وہ نظر کا شکار ہو کر گرفتار ہوچکا ہے۔ وہ اب ایسا بیمار ہے ، جو کہ ہلاکت کے دھانے پر گھوم رہا ہے۔ وہ تومر چکا ہے ، جو کہ صبح و شام زندوں کی صورت میں دن گزار رہا ہے۔اور وہ اپنی اس موت سے قیامت کے دن تک اٹھنے والا نہیں۔ وہ تو سکرات موت کے عالم میں مبتلا ہے اوراس کا دل ان ہی حسین صورتوں میں ختم ہوچکا ہے، اور اب مرنے تک اسے موت بھی نہیں آئے گی ؛ [ایسے ہی سکرات کے عالم میں رہے گا]۔‘‘ [1] ۵۔عاشق کا دنیا و آخرت سے بے بہرہ ہوجانا: ان صورتوں مورتوں کے عشق سے بڑھ کر کوئی اور چیز ایسی نہیں ہے جس سے انسان کا دین و ایمان اور دنیاوی مصلحتوں کا ضیاع ہوتا ہو۔دین کا ضیاع اس طرح ہوتا ہے کہ انسان کا دل اپنے محبوب کے لیے متفرق ہوجاتا ہے، اور وہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے وقت نہیں پاتا۔دنیاوی مصلحتیں دینی مصلحتوں کے تابع ہونے کی وجہ سے ضائع ہوتی ہیں۔ جب انسان دینی مصلحتوں سے غافل ہوکر مشغول ہوجاتا ہے ، تو وہ دنیاوی مصلحتوں کا سب سے زیادہ ترک کرنے والا اور ان میں تفریط کا شکار ہوتا ہے۔ ۶۔ عاشق اوردنیاوی آفات: دنیاوی و اخروی مصائب عاشق پر اتنی جلدی اثر انداز ہوتی ہیں جتنی جلدی تیز آگ
Flag Counter