۱۔کسی کے لیے بھی عدمِ تواضع کی رغبت:
یہ رغبت بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے سرکشی کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ جس کے ہاتھوں میں زمین و آسمان کی کنجیاں ہیں ،اوروہ ہر ایک چیز پر قدرت رکھتا ہے[ مگر یہ انسان اس کے احکامات ماننے سے بھی انکار کردیتا ہے ]
اس رغبت کے ساتھ متکبر کے دل میں یہ شعور اوراحساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ بے پرواہ اور مستغنی ہے۔اسے کسی کی کوئی حاجت و ضرورت نہیں ؛اس نظریہ اور سوچ سے سرکشی اور بغاوت پیدا ہوتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿ كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى (6) أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى ﴾ (العلق:۶۔۷)
’’سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو بے پرواہ(یا تونگر)سمجھتا ہے۔‘‘
امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ کہ انسان اپنی حد سے آگے گزر جاتا ہے ، اور اپنے رب پر تکبر کرنے لگتا ہے اوروہ یہ سوچتا ہے کہ وہ بے پرواہ اور بے نیاز ہوگیا ہے۔‘‘[1]
۲۔ دوسروں سے امتیازی حیثیت کی طمع:
متکبر انسان کے دل میں یہ خیال رہتا ہے کہ یہ اس کا حق ہے کہ معاشرہ اسے امتیازی اور اونچی منزلت سے نوازے اور اس کے لیے بلند مقام و مرتبہ اور شرف و منزلت کا اعتراف کریں۔
اگر معاشرہ اس کے لیے ان چیزوں کا اعتراف نہ کرلے ، تو اس کے جی میں منصوبے پیدا ہونے لگتے ہیں کہ وہ جس چیز کی طمع و تمنا رکھتا ہے ،اسے تکبر و فخر کے ذریعہ حاصل کر سکتا ہے۔
۳۔ اپنی ذات یا علم میں نقص کو چھپانے کی کوشش:
تکبر کرنے والا ہمیشہ سے اس بات کا حریص ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی نظروں میں بڑا نظر
|