Maktaba Wahhabi

105 - 566
یعنی اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی یاد کو بھلا دیاہے ، اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا ، اور انھیں بھلادیا، جیسا کہ فرمان ِالٰہی ہے: ’’ اور کہا جائے گا آج کے دن ہم تمھیں اس طرح بھلا دیں جس طرح تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا۔بے شک منافق ہی فاسق و بد کردار ہیں۔‘‘یعنی راہ ِ حق سے بھٹکے ہوئے اور گمراہی پر چلنے والے ہیں۔‘‘[1] ۲۰۔ جہاد سے نفرت اور پیچھے رہنا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ ﴾ (التوبۃ:۸۱) ’’وہ لوگ جو پیچھے چھوڑ دیے گئے وہ اللہ کے رسول کے پیچھے اپنے بیٹھ رہنے پر خوش ہوگئے اور انھوں نے ناپسند کیا کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور انھوں نے کہا گرمی میں مت نکلو۔ کہہ دے جہنم کی آگ کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش! وہ سمجھتے ہوتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیچھے رہ جانے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے کے بعد پیچھے رہ جانے پر خوش ہو رہے تھے، اور انہوں نے اس بات کو نا پسند کیا کہ وہ اللہ کی راہ میں نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی جانوں اور اموال کے ساتھ جہاد کریں، اور یہ آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ سخت گرمی میں مت نکلو۔ اس لیے کہ غزوہ تبوک کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سخت گرمی کے موسم میں نکلے تھے۔ جب کہ اس وقت پھل تیار تھے اور درختوں کے سائے بہت ہی گھنے اور شان دار تھے۔ اسی لیے منافقین آپس میں کہنے
Flag Counter