Maktaba Wahhabi

546 - 566
’’ سیّدنا عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ خراسان تشریف لائے، اور ایک شخص کے پاس جانے کا ارادہ کیا جو اپنے زہد و تقویٰ میں بڑا مشہور تھا۔ جب اس آدمی کے پاس داخل ہوئے تو وہ آپ کی طرف نہیں مڑا اور نہ ہی آپ کو کوئی اہمیت دی۔ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اس کے پاس سے اٹھ کر چل دیے۔ اس آدمی کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کسی نے کہا: تم جانتے ہو یہ آدمی کون تھا؟ اس نے کہا نہیں۔ کہا: یہ صاحب حدیث میں امیر المومنین سیّدنا عبد اللہ بن مبارک تھے۔ وہ انسان ہکا بکا رہ گیا، اور جلدی جلدی ابن مبارک کے پیچھے نکلا اور اپنے عذر پیش کرنے لگا۔اور کہا: اے ابوعبدالرحمن ! میرا عذر قبول فرمائیے اور مجھے نصیحت کیجیے۔ آپ نے فرمایا: ہاں بہت اچھا: ’’ جب تم اپنے ٹھکانے سے نکلو تو کسی پر تمہاری نظر نہ پڑے ، مگر اسے اپنے آپ سے اچھا اور بہتر سمجھو۔‘‘[1] آپ نے ایسا اس وجہ سے کیا کہ یہ زاہد انسان خود پسندی اور خوش فہمی کا شکار تھا۔ یہ متکبر مغرور لوگوں کا حال ہے۔ جب کہ سلف صالحین [ایسی باتوں سے بہت دور تھے ان میں سے کسی نے کہا ہے: ’’میں اہل عرفات کی طرف دیکھتا ہوں ، تو میرے دل میں خیال پیدا ہوتاہے کہ اگر ان لوگوں میں میں نہ ہوتا تو ان کی مغفرت کردی جاتی۔‘‘[2] مومن انسان ہمیشہ اپنے نفس اور علم کو کم تر سمجھتا رہتا ہے۔سیّدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے کہا گیا: ’’ جب آپ کا انتقال ہوجائے گا توآپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں دفن کریں گے۔‘‘تو آپ نے فرمایا: ’’ اگر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے علاوہ تمام گناہ لیے ہوئے اپنے رب سے ملاقات کرو ں وہ میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اپنے آپ کو وہاں پر دفن کیے جانے کے قابل سمجھوں۔‘‘[3]
Flag Counter