Maktaba Wahhabi

545 - 566
رازوں کو اللہ کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔ ہاں جو کوئی انسان ایسا کلام یا جملہ لوگوں کے حال پر غم کھاتے ہوئے اور افسوس کرتے ہوئے کہے ؛ مثال کے طور پر دیکھے کہ لوگوں میں دین یا دینی امور کی رعایت ختم ہوتی جارہی ہے تو وہ ایسا کلمہ کہہ دے تو اس پر کوئی حرج نہیں, جیسا کہ سیّدنا ام دردا ٓ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’ایک دن ابودردا میرے پاس غصہ میں بھرے ہوئے آئے میں نے کہا کہ آپ اتنے غصے کیوں ہو؟ بولے کہ اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کوئی بات اب میں نہیں دیکھتا صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ جماعت سے نماز پڑھ لیتے ہیں سو اب اس میں کوتاہی ہونے لگی ہے۔‘‘[1] امام مالک رحمہ اللہ نے اس جملہ کی ایسے ہی تفسیر کی ہے ، اور لوگوں نے [اس میں] آپ کی اتباع کی ہے۔ [2] علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ بعض زہدکا اظہار کرنے والے لوگ غفلت کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے دل میں بہت جلد ہی یہ خیال گھر کر لیتا ہے کہ وہ محبوب اور مقبول ولی ہے۔اور بسااوقات دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے، اوروہ یہ گمان کرتا ہے کہ وہ خود اس بیماری سے [جس کا شکار دوسرے لوگ ہیں ] محفوظ ہے۔ اسے نماز کی وہ چند رکعات دھوکے میں ڈال دیتی ہیں جن کی وہ مشقت برداشت کرتا ہے، اور بسا اوقات تووہ یہ گمان کرنے لگتاہے کہ وہی زمین کا ’’قطب ‘‘ ہے، اور اس کا یہ مقام اس کے بعد کوئی دوسرا نہیں حاصل کرسکتا۔‘‘[3] امام خطابی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ العزلۃ ‘‘میں فرماتے ہیں:
Flag Counter