Maktaba Wahhabi

536 - 566
سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیّدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا تھا: ’’ تمہیں کسی طرح تمہارا فیصلہ جو کہ گزشتہ کل میں کر چکے ہوں [آج حق بات کی طرف رجوع کرنے سے نہ روکے ]، اگر تم آج حق کی طرف رجوع کروگے تو کامیابی تمہارا مقدر ہو گی۔ حق کی طرف رجوع کرو۔ بے شک حق ہی قدیم، اور حق کی طرف رجوع کرنا باطل میں سرکشی کرنے سے بہت بہتر ہے۔‘‘[1] سیّدنا عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’ ’ ہم ایک جنازہ میں شریک تھے۔ اس جنازہ میں عبید اللہ بن الحسن رحمہ اللہ بھی تھے جو کہ قضاء کے منصب پر فائز تھے۔ … میں نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا ؛ جس میں انہوں نے غلط جواب دیا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کی اصلاح کرے ؛ اس مسئلہ میں حق قول یعنی درست بات ایسے ایسے ہے …۔‘‘انہوں نے کچھ دیر کے لیے اپنا سر جھکایا، پھر سر اٹھایا اور فرمایا: ’’ تو پھر میں اپنے قول سے رجوع کرتا ہوں۔ میں چھوٹا ہوں۔ ’’ تو پھر میں اپنے قول سے رجوع کرتا ہوں؛ میں چھوٹا ہوں۔‘‘یہ کہ حق بات میں میں ’’ دُم ‘‘ بن کررہوں ،یہ میرے لیے اس سے بہت بہتر ہے کہ میں باطل کا ’’سر ‘‘ [سب سے آگے سرغنہ] بن کر رہوں۔‘‘[2] دوسری چیز:… ((وغمط الناسِ )): لوگوں کو کمتراور حقیر سمجھنا۔ (غمط): کا معنی ہے ،حقیر اور کمتر سمجھنا ، انھیں معمولی اور چھوٹا جاننا۔ (غمط الناسِ): کا معنی ہوا لوگوں کو بے وقعت ، کمتر ، گھٹیا ، اور حقیر سمجھنا۔ انھیں کوئی اہمیت نہ دینا، ان کے حقوق ادا نہ کرنا اور نہ ہی انہیں تسلیم کرنا ، اور ان کی اچھی صفات یا صلاحیتوں کاانکار کرنا ، اور اپنے تعریف و ثنا کرکے [اپنے منہ میاں مٹھو ] بن کر خود کو ان سے بالا تر سمجھ اور ان لوگوں پر اپنی برتری جتانا۔
Flag Counter