ہوں اور اس کی جو تی بھی اچھی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ خوبصورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔‘‘
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبر کے معانی بیان کرتے ہوئے دو اہم چیزیں بتائی ہیں:
پہلی چیز:… ’’ بطر الحق‘‘: یعنی حق کا انکار کرنا ،اور اس کے ساتھ حق کو حقیر سمجھنا ، اور خود کو حق کے قبول کرنے سے بالاتر سمجھنا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ جن کے سامنے اگران سے مقام و مرتبہ میں یا عمر [و علم ] میں کم درجہ کے لوگ ایسی حق بات پیش کریں جس کے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہ ہو۔مگر یہ حق ان کی رائے ، یا ان کے فیصلہ یا ان کے سابقہ علم کے خلاف ہو تو اس کا انکار کردیتے ہیں اور اسے نہیں مانتے، اور اس حق پیش کرنے والے کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں، اور اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں، اور بسا اوقات ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی ذاتی مصلحت بھی حق کی جانب ہو، اس باطل کی جانب نہ ہو جس پر وہ اصرار کیے ہوئے ہیں۔
اس قسم کے لوگ کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔ ایسے لوگ بالخصوص چھوٹے معاشروں میں، خاندان میں ، سکول میں، دفاترمیں یا کام کے ٹھکانوں پر اور دوستوں کے درمیان ہیں۔
متکبر انسان کو اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ اگر وہ کسی دوسرے کی طرف سے صادر ہونے والی حق بات کو قبول کر لے گا تو عزت اور شرف دوسرے انسان کے نصیب میں آجائے گا، اسی وجہ سے وہ حق بات کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے، اور لوگوں کے سامنے اپنی بڑائی جتلاتا ہے۔ اسے یہ بات گوارہ نہیں ہوتی کہ وہ کسی دوسرے کی بات مان کر چلے۔
اگر اس متکبر اور شیخی خور انسان کو عقل ہوتی ، اور وہ علم وبصیرت کے ساتھ دیکھتا تو اسے پتہ چل جاتا کہ اس کی عزت و منزلت تو حق بات کے قبول کرنے میں ہے ؛ نہ کہ باطل اور سرکشی کا شکار ہونے میں۔
|