Maktaba Wahhabi

477 - 566
((إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَّإِنَّہٗ یَأْتِینِی الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضَہُمْ أَنْ یَّکُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَحْسِبُ أَنَّہٗ صَادِقٌ فَأَقْضِی لَہٗ بِذٰلِکَ۔ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہٗ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا ہِیَ قِطْعَۃٌ مِّنَ النَّارِ فَلْیَأْخُذْہَا فَلْیَتْرُکْہَا)) [1] ’’بے شک میں تو محض ایک انسان ہوں اور میرے پاس مقدمہ آتا ہے، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایک دوسرے سے زیادہ بلیغ ہو اور میں یہ گمان کر کے فیصلہ کر دوں کہ وہ سچا ہے، جس شخص کے لیے مسلمان کے حق میں فیصلہ کروں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے اب وہ اس کو لے لے یا اس کو چھوڑ دے۔‘‘ یہ جدل انسان کی طبیعت میں ہے جو کہ قیامت تک باقی رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت کے بعد بھی یہ جدل ختم نہیں ہوگا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِهَا ﴾ (النحل:۱۱۱) ’’جس دن ہر شخص اپنی ذات کے لیے لڑتا جھگڑتاہوا آئے گا۔‘‘ یعنی جھگڑا کرے گا اور دنیا میں جو کچھ کیا ہوگا اس کے متعلق حجتیں پیش کرے گا، اور اپنی ذات کا دفاع کرے گا۔ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے ہنسا ہوں؟ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ((مِنْ مُخَاطَبَۃِ الْعَبْدِ رَبَّہٗ یَقُولُ یَا رَبِّ اَلَمْ تُجِرْنِی مِنَ الظُّلْمِ قَالَ یَقُولُ بَلٰی قَالَ فَیَقُولُ فَاِنِّی لَا اُجِیزُ عَلَی نَفْسِی اِلَّا شَاہِدًا مِّنِّی قَالَ فَیَقُولُ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ شَہِیدًا وَبِالْکِرَامِ الْکَاتِبِینَ شُہُودًا قَالَ فَیُخْتَمُ عَلَی فِیہِ فَیُقَالُ لِاَرْکَانِہٖ انْطِقِی قَالَ
Flag Counter