Maktaba Wahhabi

452 - 566
پر ترجیح دی ہے، اور اس نے ہمیشہ کی من پسند زندگی کو چندسپنوں کے بدلے میں بیچ ڈالا۔ جیسے کہ ایک شاعر کہتا ہے: أَحْلاَمُ نَوْمٍ أَوْ کَظِلٍّ زَائِلٍ إِنَّ الْلَّبِیْبَ بِمِثْلِھَا لاَ یُخْدَعُ ’’یا تو نیند کا خواب ہے ، یا ختم ہونے والا سایہ ، اور عقلمند انسان ایسی چیزوں سے دھوکا نہیں کھاتا۔‘‘ [جو تھا نہیں ہے ، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اِک حرف محرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی ، اسی کا مشتاق ہے زمانہ ] جیسا کہ ایک اعرابی کچھ لوگوں کے پاس گیا۔ انہوں نے اسے کھانا پیش کیا۔ جب اس نے کھانا کھالیا تو خیمے کے سائے میں جاکر سو گیا، ان لوگوں نے خیمہ اکھاڑ لیا جب اسے سورج کی گرمی پہنچی تو بیدار ہوا اوریہ شعر کہا: وَإِنِ مْرُؤ دُنْیَا أَکْبَرَ ہَمِّہٖ لَمُسْتَمْسِکٌ مِنہَا بِحَبَلٍ غُرُوْرٍ ’’بے شک وہ انسان جس کی تمام تر فکر ہی دنیا ہے حقیقت میں وہ ایک دھوکے والی رسی کو پکڑے ہوئے ہے۔‘‘ بعض سلف صالحین اس شعر سے مثال بیان کیا کرتے تھے: یَا أَہْلَ لَذَّاتِ دُنْیَا لَا بَقَائَ لَہَا إِنَّ اغْتِرَارَ بِظِلٍّ زَائِلٍ حَمَقٌ ’’اے دنیا کی لذتوں کے مزے لینے والو! اس دنیا کو کوئی بقا نہیں ہے۔بیشک ختم ہوجانے والے سائے سے دھوکا کھانا ایک حماقت ہے۔‘‘ یونس بن عبد الاعلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بلا شبہ دنیا کی تشبیہ ایک سوئے ہوئے آدمی سے دی گئی ہے جو خواب میں
Flag Counter