Maktaba Wahhabi

412 - 566
سیّدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس سے مراد ہر قسم کا کھیل و تماشہ ہے۔‘‘ سیّدنا ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ اس دنیا کی زندگی کی حقارت اور پستی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿ اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ﴾ ’’خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشہ زینت اور آپس میں فخر(و غرور)اور مال اولاد میں ایک دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے۔‘‘ یعنی اس کا معاملہ اہل دنیا کے ہاں ایسے ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہ آیت بالکل ایسے ہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ﴾ (آل عمران:۱۴) ’’مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔‘‘ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کی زندگی کی مثال بیان کی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ یہ ایک فنا ہوجانے والی رونق ہے۔ سو فرمایا: ﴿ كَمَثَلِ غَيْثٍ ﴾ اس کی مثال جیسے کہ بارش کی مثال ہے‘‘ غیث اس بارش کو کہتے ہیں جو لوگوں کے بارش سے مایوس ہوجانے کے بعد نازل ہوتی ہے،جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا ﴾ (الشوری:۲۸)
Flag Counter