Maktaba Wahhabi

317 - 566
’’ہمارے نزدیک بھلائی کا حکم دینے والا اور برائی سے منع کرنے والا وہ انسان نہیں جو بادشاہوں کے درباروں میں جاتا ہے ، مگر ہمارے نزدیک بھلائی کا حکم دینے والا اور برائی سے منع کرنے والا وہ انسان ہے جو ان سے دوری اختیار کرتا ہو۔‘‘ اس ممانعت کا سبب بادشاہوں کے درباروں میں جانے سے فتنہ میں واقع ہونے کا خوف اور اندیشہ ہے۔اس لیے کہ جب انسان ان لوگوں سے دور ہوتا ہے تو اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ وہ ان حکمرانوں اور سرداروں کے پاس جاکر انھیں نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے منع کرے گا اور ان پر سختی کرے گا اور جب قریب سے ان کا مشاہدہ کرتا ہے تو دل ان کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ شرف و منزلت کی محبت نفس میں چھپی ہوئی ہوتی ہے، اور وجہ سے وہ ان کے ساتھ مداہنت ( دنیاوی امور اختیار کرتے ہوئے دینی امور میں نرمی ) کے ساتھ پیش آتا ہے۔بسا اوقات و ہ پوری طرح ان کی طرف مائل ہوجاتا ہے اوران سے محبت کرنے لگتاہے، اور خصوصی طور پر جب حکمران لوگ اس کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں اور عزت و اکرام کریں؛ تو ان کی طرف سے ایسی چیزیں قبول کرنی پڑتی ہیں۔ ایسا معاملہ سیّدنا عبد اللہ بن طاؤوس کے ساتھ بعض شہزادوں کی طرف سے ان کے والد کی موجود گی میں پیش آیا۔ جس پر سیّدنا طاؤوس نے اپنے بیٹے کی ڈانٹ ڈپٹ کی۔ سیّدنا سفیان ثوری نے عباد بن عبّاد رحمہ اللہ کی طرف لکھا تھا: ’’خبر دار !ہر گز حکمرانوں کے قریب بھی مت جانا، اور نہ ہی کسی چیز میں ان کے ساتھ کوئی میل جول رکھنا۔ خبردار کہ تمہیں دھوکا دیا جائے اور تم سے یہ کہا جائے کہ تم سفارش کرو۔ یا مظلوم کی مدد کرو ، یا ظلم سے نجات دلاؤ۔ بے شک یہ ابلیس کا دھوکا ہے۔ جس نے [فاسق و ] فاجر قاریوں کو اپنے لیے سیڑھی بنالیا ہے، اور جو چیز آپ کے لیے سوال و جواب اور فتویٰ کی صورت میں کفایت کررہی ہے اس کو غنیمت سمجھو، اور اس میں لوگوں پر سبقت لے جانے کی کوشش نہ کرو۔
Flag Counter