Maktaba Wahhabi

119 - 611
’’کہہ دیجیے: بھلا د یکھو تو سہی جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، مجھے دکھاؤ تو سہی انھوں نے زمین میں کیا بنایا ہے اور آسمانوں میں ان کی شراکت کیا ہے؟‘‘ بہ ظاہرجو کوئی توحید کی اس قسم کا انکار کرتا ہے جیسا کہ فرعون، وہ بھی دل سے اسے درست سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی فرعون کے متعلق سورت بنی اسرائیل (آیت: ۱۰۲) میں فرمایا ہے: { قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھٰٓؤُلَآئِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآئِرَ} ’’تو خوب جان چکا ہے کہ ان نشانیوں کو آسمانوں اور زمین کے پروردگار ہی نے اتارا ہے۔‘‘ پھرسورۃ النمل (آیت: ۱۴) میں اس کے اور اس کی قوم کے متعلق فرمایا: { وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا} ’’ان کے دلوں میں ان نشانیوں کا یقین آگیا تھا، لیکن انھوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کیا۔‘‘ سورۃ العنکبوت (آیت: ۳۸) میں پہلی امتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: { وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَا وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَکُمْ مِّنْ مَّسٰکِنِھِمْ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ کَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَ} ’’ اور عاد اور ثمود کو بھی (ہلاک کیا) اور ان کے گھر تمھارے لیے ظاہر ہیں، شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے زینت دی اور ان کو (سچی) راہ سے دور کردیا اور وہ سب کچھ دیکھنے والے اور ہوشیار تھے۔‘‘ یعنی وہ عقل مند اور ہوشیار تھے، لیکن دین کے معاملے میں انھوں نے اپنی عقل و بصیرت سے کچھ کام نہیں لیا، اس لیے یہ عقل اور سمجھ ان کے کام نہ آئی۔ یعنی دلائل و معجزات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ بدستور منکر بنے رہے۔ یعنی انھوں نے ایمان و تقوی اختیار کرنے سے گریز کیا۔ جس طرح انسانوں کے کسی معروف گروہ نے توحید کی اس قسم کا انکار نہیں کیا، اسی طرح ان امور میں شرک کا ارتکاب بھی نہیں کیا، سب ہی اس بات کا اقرار کرتے رہے ہیں کہ اللہ ہی تنہا تخلیق کرنے والے اور کائنات کا نظم ونسق چلانے والے ہیں۔ دنیا کے گروہوں میں سے کسی سے بھی یہ کہنا ثابت نہیں کہ تخلیق کرنے والے دو ہیں، جو صفات اور افعال میں برابر ہیں۔ مجو سیوں میں سے
Flag Counter