Maktaba Wahhabi

257 - 611
بنیادی باتیں بتائیں۔ ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ کچھ مدت کے بعد مجھے اپنی ملازمت کے سلسلے میں بہار کے جنگلوں میں جانا تھا۔ رخصت کرتے ہوئے نوجوان کے والد نے مجھے چند کتابیں دیں جن میں محمد پکتھال کا انگریزی ترجمے والا قرآن مجید بھی تھا۔ بہار کے جنگلوں میں تنہائی میسر تھی۔ ماحول بھی قدرت کی دل فریبیوں اور رعنائیوں سے معمور تھا۔ خیال آیا کہ قرآنِ مجید کا مطالعہ ہی کیا جائے۔ ’’قرآن مجید کھولا تو سورت کوثر سامنے آگئی۔ پڑھنا شروع کیا۔ چھوٹے چھوٹے بول میرے دل میں تیر و نشتر کی طرح پیوست ہوتے چلے گئے۔ الفاظ کے ترنم نے میرے کانوں میں رس گھولنا شروع کر دیا۔ معلوم نہیں ان میں کیا جادو تھا کہ میری زبان بے اختیار انھیں دہرانے لگی۔ میں پڑھتا چلا گیا اور یوں محسوس کیا کہ آبِ حیات کے قطرے مرجھائے ہوئے پھو لوں کو تازگی اور شگفتگی بخش رہے ہیں۔ دل چاہا کہ قرآن پاک کی پاکیزہ تعلیمات پر ایمان لے آؤں، لیکن مادہ پرست ماحول میں پرورش پائے ہوئے ذہن کا کبر و غرور، شکوک و شبہات پیدا کر رہا تھا۔ دل اور دماغ میں کشمکش شروع ہو گئی۔ بہار سے واپس لکھنو آیا تو آتے ہی مولوی صاحب سے ملا، اپنے شکوک و شبہات پیش کیے۔ مولوی صاحب نے نہایت حکیمانہ اور مد لل اندازسے میرے شکوک و شبہات رفع کیے۔ قلب و ذہن میں ابدی صداقت کو سینے سے لگا لینے کا بے پناہ جذبہ امڈ آیا تھا، آنکھیں بے یقینی کے اندھیرے سے نکل کر ایمان کی روشنی کا مشاہدہ کرنے کے لیے بے تاب ہوگئیں اور زبان پر بے ساختہ کلمہ شہادت جاری ہو گیا: (( اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَ شْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ )) 2. ڈاکٹر غرینیہ: فرانس میں پیدا ہوئے۔ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور فرانسیسی پارلیمنٹ کے رکن بنے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے قبولِ اسلام کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’میری جوانی سمندری سفر میں گزری۔ سمندر کے نظاروں اور سفروں کا شوق ہی گویا میرا مقصدِ زندگی تھا۔ اس شوق کے علاوہ میرا دوسرا مشغلہ کتابوں کا مطالعہ تھا۔ یہی ذوق مجھے
Flag Counter