Maktaba Wahhabi

438 - 611
بوڑھوں اور کمزوروں کے لیے رخصت: سجدے کی مسنون کیفیت کے سلسلے میں جو احادیث ذکر کی جاچکی ہیں، ان کی رو سے بوقتِ سجدہ نمازی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ تو اپنی کہنیوں کو گھٹنوں پر رکھے، نہ پہلوئوں سے جوڑ کر رکھے اور نہ بازوئوں کو زمین پر بچھائے، بلکہ زمین سے اٹھا کر پہلوؤں اور گھٹنوں سے الگ رکھے۔ ظاہر ہے کہ تندرست و نوجوان مرد و زن اس کیفیت کو بہ آسانی اختیار کر سکتے ہیں، البتہ انتہائی بوڑھے اور بیمار و کمزور شخص کے لیے یہ انداز مشکل ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں ایسی صورت میں کہنیوں کو گھٹنوں پر لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بحالتِ سجدہ کہنیاں پہلوؤں سے ہٹا کر اور اٹھا کر رکھنے میں مشقت کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گھٹنوں (پر ٹیک لگا کر اُن) سے تعاون حاصل کر لو۔‘‘[1] فضائلِ سجدہ: سجدے سے تعلق رکھنے والے امور میں سے ایک بات سجدے کا مقام و مرتبہ، عزو شرف اور فضیلت و اہمیت ہے۔ 1. نہایت درجہ قربِ الٰہی: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بندہ اپنے رب کے قریب تر اُس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو، لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعائیں کیا کرو۔‘‘[2] 2. سجدے میں جنت ملنا اور شیطان کا رونا: صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جب بنی آدم آیتِ سجدہ پڑھے اور سجدہ کرے تو شیطان الگ ہو کر روتا اور کہتا ہے: میں برباد ہو گیا، ابنِ آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کر لیا اور جنت پائی، مجھے
Flag Counter