Maktaba Wahhabi

246 - 611
ہاتھ سے اس کو لکھ سکتا تھا (کیونکہ تو اُمّی تھا نہ پڑھا نہ لکھا) اگر پڑھا لکھا ہوتا یہ جھوٹے (دغاباز) ضرور شبہہ کرتے۔‘‘ چونکہ عرب قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے، یہ علم و فن سے کورے اَن پڑھ لوگ تھے، مگر فصاحت وبلاغت ان کا پیدایشی وصف اور کمال تھا، جس میں وہ اپنے آپ کو ساری دنیا سے ممتاز سمجھتے تھے۔ بلکہ دوسروں کو اپنے مقابلے میں عجمی (گونگے) قرار دیتے تھے۔ قرآن مجید نے ان کو مقابلے کا چیلنج دیا۔ اگر قرآن کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تمام انسانوں میں سب سے زیادہ باصلاحیت عرب ہی تھے۔ عرب سرداروں نے قرآن اور صاحبِ قرآن کو مغلوب کر نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ وہ مسلمانوں کی جان ومال اور عزت و آبرو سمیت ہر متاع پر حملہ آور ہوئے، لیکن یہ جراَت نہ کر سکے کہ قرآن کے مقابلے میں کوئی کلام پیش کریں۔ قرآنِ کریم میں یہ پیشین گوئی بھی موجود ہے کہ وہ قرآن کا یہ چیلنج قبول نہیں کر سکتے، جیسا کہ سورت بقرہ (آیت: ۲۳، ۲۴) میں فرمانِ الٰہی ہے: { وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ وَ ادْعُوْا شُھَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ. فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ} ’’اور اگر تم کو شک ہے اس کلام (قرآن) میں جو ہم نے اتارا اپنے بندے پر تو ایک ہی سورت اس کے جوڑ کی بنا لائو اور جو حمایتی تمھارے اللہ تعالیٰ کے سوا ہوں ان کو بھی بلا لو اور ان سے بھی (اس سورت کے بنانے) میں مدد لو اگر تم سچے ہو۔ اگر ایسا نہیں کرتے اور ہر گز ایسا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (بجائے لکڑیوں کے وہ اس میں جلیں گے) وہ منکروں کے لیے تیار ہے۔‘‘ اس چیلنج کے قبول کرنے کے محرکات اور دواعی موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں لیکن آج تک کوئی شخص، کوئی گروہ اور کوئی قوم قرآنِ کریم کا مقابلہ نہیں کر سکی اور نہ آیندہ ہی کر سکے گی۔ قرآنِ کریم سیکھنے اور سکھلانے کی فضیلت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter