Maktaba Wahhabi

328 - 611
اس دوران میں کوئی ایسی تکلیف نہ تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اہلِ بیت نے برداشت نہ کی ہو۔ بالآخر محاصرہ ختم ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر انچاس برس کی تھی۔ غم کا سال: شِعْبِ ابی طالب سے مسلمانوں کو نجات تو مل گئی، لیکن وہاں گزارے جانے والے تین سالوں نے بہت سوں کی صحت خراب کر دی۔ گھا ٹی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شہر میں تشریف لائے تو جلدی بعد ہی ابو طالب بیمار ہوگئے اور چند ماہ بعد چچا ابو طالب فوت ہوگئے اور ابو طالب کی وفات کے چند ہی روز بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی انتقال فرمایا، اس طرح ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہربان چچا ابو طالب کی وفات کے صدمے سے دوچار تھے کہ ایک اور غم برداشت کرنا پڑا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی مشکل ترین حالات میں اللہ کے دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا، لہٰذا ان کی وفات کا صدمہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ ان کی میت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قبر میں اتارا، چنانچہ اس سال کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک سے ’’عام الحزن‘‘ رکھا۔ اسلامی تاریخ میں یہ سال عام الحزن کے نام ہی سے مشہور ہے، اس کا مطلب ’’غم کا سال‘‘ ہے۔ اہلِ طائف کا سنگ دلانہ سلوک: ابو طالب اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد کفارِ مکہ کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے۔ پہلے کی نسبت اور زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کرنے لگے، نوبت یہاں تک آپہنچی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھرسے نکلنا مشکل ہوگیا۔ ادھر ابو طالب کی وفات کے بعد ابو لہب، بنو ہاشم کا سردار بنا۔ اس نے شروع ہی سے اعلان کر دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے افعال اور اعمال کے خود ذمے دار ہوں گے۔ اس اعلان کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برادری سے خارج کرنا تھا کہ جو بھی چاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے (معاذ اللہ) قبیلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت نہیں کرے گا۔ آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف تشریف لے جانے کا ارادہ فرمایا، تاکہ بنو ثقیف کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں، وہ اسلام قبول کرلیں تو ٹھیک ہے، ورنہ انھیں اس بات پر قائل کریں گے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے دیں۔ مکہ سے طائف کا سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل طے کیا۔ اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچنے کے بعد چند دن
Flag Counter