Maktaba Wahhabi

320 - 611
فِیْ جِیْدِھَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ } [سورۃ اللھب] ’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود بھی) ہلاک ہوگیا، اس کا مال اور اس کی کمائی کچھ اس کے کام نہ آئی۔ وہ عنقریب شعلہ مارتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا اور اس کی بیوی بھی (جہنم جائے گی) جو لکڑیاں اٹھائے پھرتی ہے۔ اس کی گردن میں پوستِ کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہے۔‘‘ ابو لہب کا انجام: ابو لہب کا اصل نام عبد العُزّیٰ تھا، اپنے حسن و جمال اور چہرے کی سرخی کی وجہ سے اسے ابولہب ’’شعلہ فروزاں‘‘ کہا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے انجام کے اعتبار سے بھی اسے جہنم کی آگ کا ایندھن بننا تھا۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید دشمن تھا، اس نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بددعا دی اور کہا کہ تو ہلاک و برباد ہو جائے تو بد دعا کے ان الفاظ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہلاکت اور بربادی کی خبر بھی دے دی، چنانچہ جنگِ بدر کے چند روز بعد یہ عدسہ بیماری میں مبتلا ہوا، جس میں طاعون کی طرح گلٹی سی نکلتی ہے، اس میں اس کی موت واقع ہوگئی اور تین دن تک اس کی لاش یوں ہی پڑی رہی حتیٰ کہ سخت بدبودار ہوگئی۔ بالآخر اس کے لڑکوں نے بیماری کے پھیلنے اور عار کے خوف سے، اس کے جسم پر دور ہی سے پتھر اور مٹی ڈال کر اسے دفنا دیا۔ ابو لہب کو جن چیزوں پر تکبر اور غرور تھا وہ کیا تھیں؟ اس کی کمائی اور اس کی رئیسانہ حیثیت، جاہ و منصب اور اس کی اولاد بھی اس میں شامل ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آئی تو کوئی چیز اس کے کام نہ آسکی۔ اس کی بیوی ام جمیل بنت حرب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی میں اپنے خاوند سے کم نہ تھی اور یہ جہنم میں اپنے خاوند کی آگ پر لکڑیاں لا لاکر ڈالے گی تاکہ آگ مزید بھڑکے۔ یہ اللہ کی طرف سے ہوگا، یعنی جس طرح یہ دنیا میں اپنے خاوند کی اس کے کفر و عناد میں مددگار تھی، آخرت میں بھی عذاب میں اس کی مددگار ہوگی۔[1] بعض کہتے ہیں کہ وہ کانٹے دار جھاڑیاں ڈھو ڈھو کر لاتی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں لا کر بچھا دیتی تھی اور بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ کفارِ قریش کے پاس جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبت کرتی اور
Flag Counter