Maktaba Wahhabi

404 - 611
میں سے ایک بڑے حصے کی سطح پانی ہے اور دوسرے حصے کی مٹی، اس لیے پانی اور مٹی میں ایک مناسبت ہے۔ نیز انسان کی ابتدائی تخلیق بھی پانی اور مٹی ہی سے ہوئی ہے اور مٹی ہی ایک ایسی چیز ہے جسے انسان سمندر کے سوا ہر جگہ پاسکتا ہے اور مٹی پر ہاتھ مار کر منہ پر پھیرنے میں تذلل وانکساری اور خاکساری کی بھی ایک خاص شان ہے اور چونکہ انسان کا آخری ٹھکانا بھی مٹی اور خاک ہی ہے۔ مر کر اسے خاک ہی سے جا ملنا ہے۔ اس لیے تیمم میں موت اور قبر کی یاد بھی پائی جاتی ہے۔ تیمم کی مشروعیت میں یہ حکمتیں اور اسرار ور موز محسوس کیے جاسکتے ہیں۔[1] تیمم اور قرآنِ کریم: یہ تیمم قرآن وسنت اور اجماعِ امت تینوں کی روسے جائز اور ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا طریقہ سورت مائدہ (آیت: ۶) میں بیان فرمایا ہے، اس آیت میں پہلے وضو کے اصول و احکام ہیں اور پھر اسباب وطریقہ تیمم کا ذکر ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: { وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ} ’’اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا میں سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمھیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اُس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (تیمم) کر لو، اللہ تعالیٰ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘ تیمم اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : حدیث شریف میں بھی ان امور کا تذکرہ آیا ہے، چنانچہ صحیح مسلم، مسند احمد اور بیہقی میں
Flag Counter