Maktaba Wahhabi

624 - 611
بچے) اور عقل مندو! مجھ سے (میرے عذاب اور غصے سے) ڈرتے رہو، اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں) اپنے پروردگار کا فضل و کرم چاہو، پھر جب عرفات سے (نویں تاریخ شام کو) لوٹو تو (مزدلفہ) میں آکر اللہ کو یاد کرو اور جیسے اللہ تعالیٰ نے تم کو بتلایا، اس طرح یاد کرو اور اس سے پہلے تو تم گمراہ تھے۔ ایک بات اور ہے کہ اسی مقام سے لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو، بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے، پھر جب حج کے کام پورے کر چکو تو جس طرح (جاہلیت کے زمانے میں) اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے تھے، اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ اللہ کی یاد کرو تو بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہم کو (جو دینا ہے) دنیا ہی میں دے دے، ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہ رہا اور بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو ان کی کمائی میں سے کچھ حصہ ملے گا اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ کو یاد کرو، پھر جو شخص جلدی کر کے دو ہی دن میں (منیٰ سے) چل دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں اور جو دیر (تیرہ تاریخ) تک ٹھہرا رہے، اس پر بھی کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ پرہیزگار ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ سمجھ لو کہ تم اس کے پاس (قیامت کے دن) اکٹھے ہوگے۔‘‘ ۸/ذو الحج، یومِ ترویہ: جو لوگ حجِ تمتع کر رہے ہوں اور عمرے کا احرام کھول چکے ہوں، وہ ۸/ذو الحج (یومِ ترویہ) کو اپنی قیام گاہ پر غسل کریں۔ مرد حُجاج دستیاب شدہ عمدہ خوشبو لگائیں اور اپنی قیام گاہ ہی سے حج کا احرام باندھ لیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا تھا اور یہی مسنون طریقہ ہے۔ ۸/ذوالحج یعنی یومِ ترویہ کو نمازِ ظہر، عصر، مغرب، عشا اور اگلے دن کی نمازِ فجر منیٰ ہی میں جاکر ادا کرنا سنت ہے، کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یومِ ترویہ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ کی طرف روانہ ہوئے اور اپنی
Flag Counter