Maktaba Wahhabi

538 - 611
حدیث سے ممانعت ثابت ہے۔[1] لیکن جو لوگ وہاں ڈیوٹی دے رہے ہیں، یعنی حج نہیں کر رہے، اپنے کام کے لیے گئے ہوئے ہیں مثلا ً: کوئی ڈاکٹر ہے اور کوئی پولیس والا ہے یا پھر کچھ لوگوں نے وہاں دکانیں لگائی ہیں، یعنی کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں عرفات میں موجود ہیں اور حج نہیں کررہے تو ایسے لوگوں میں سے اگر کوئی یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا چاہے تو ان کے لیے منع نہیں، وہ رکھ سکتے ہیں۔ محرم کے روزے اور ان کی فضیلت: اِسی طرح ماہِ محرم اور خصوصاً یومِ عاشورا اور اُس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی مسنون ہے، چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’رمضان کے روزوں کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل تہجد کی نماز ہے۔‘‘[2] صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یومِ عاشورا کا روزہ بڑی کوشش سے رکھا کرتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیاتھا۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس محرم تو یہود ونصاریٰ کے نزدیک بڑی عظمت کا دن ہے۔ مسلم شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں آیندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا روزہ ضرور رکھوں گا۔‘‘ مگر آیندہ سال آنے سے پہلے ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو گئے، یہ دوسرا روزہ اس لیے تھا تاکہ یہودیوں اور نصاریٰ سے مشابہت نہ رہے کیونکہ وہ بھی دس تاریخ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ صرف یومِ عاشورا کے روزے کے بارے میں مسلم،ابوداود اور بیہقی وغیرہ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یومِ عاشورا کا روزہ آیندہ پورے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔‘‘[3]
Flag Counter