Maktaba Wahhabi

376 - 611
ہیں اور پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد والے ہیں۔‘‘ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک آنے والے لوگوں میں سے اپنے اور اپنے صحابہ، پھر تابعین اور اس کے بعد تبع تابعین کے تین زمانوں کو قرونِ خیر قرار دیا ہے اور اس میلاد النبی کے بارے میں صحابہ و تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی سے کچھ منقول نہیں کہ ان تینوں صدیوں میں کسی نے یہ عیدِ ثالث منائی ہو۔ نیز معروف فقہی مذاہب کے ائمہ مجتہدین حضرت امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی اجتہادی مساعی اور کتبِ فقہ کا مطالعہ کریں، آپ کو کسی بھی امام صاحب کے یہاں اس عید کا ذکر ملے گا اور نہ دیگر فقہا و محدثین میں سے کسی نے اس کا حکم دیا ہے۔ تو پھر بہنو! جو چیزیں تینوں قرون مشود لہا بالخیر بلکہ اسلام کے پہلے چھ سَو پچیّس (۶۲۵) برس تک موجود نہ تھی، اُسے جائز و ثواب قرار دینا شریعت سازی اور سینہ زوری کے سوا کچھ نہیں۔ قائلینِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل اور اُن کا جائزہ: ہم نے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت کے بارے میں ذکر کر دیا ہے کہ اس کا عہدِ رسالت و خلافت اور دورِ صحابہ و تابعین سے کوئی ثبوت نہیں ملتا، بلکہ ساتویں صدی ہجری (۶۲۵ھ) میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی اور موصل کے قریبی شہر اَربل کے گورنر ملک مظفر ابو سعید کوکبوری نے اسے رواج دیا۔وہ محفلِ میلاد میں بھانڈ، میراثی، راگ و رنگ اور ناچنے والوں کو جمع کرتا اور راگ سنتا اور گانا باجاسن کر خود بھی ناچاکرتا تھا۔[1] ’’الإبداع في مضار الابتداع‘‘ میں لکھا ہے: ’’عیسائیوں کے کرسمس کی دیکھا دیکھی مصری فاطمیوں نے جشنِ میلاد کو رواج دیا تھا۔‘‘[2] قرونِ اُولیٰ میں اس کا ثبوت نہ ہونے اور ساتویں صدی میں آکر شروع ہونے کی وجہ سے اہلِ علم نے اسے ’’بدعت‘‘ قرار دیا ہے۔ اس میلاد کے جواز کا فتویٰ سب سے پہلے مَلک مظفر کے عہد کے ایک مولوی شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ نے ایک رسالے ’’التنویر في مولد البشیر النذیر‘‘
Flag Counter