Maktaba Wahhabi

303 - 611
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نہ ملتا ہو۔ نیز ہر وہ کام منکر ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہو، جیسا کہ سورۃ النساء (آیت: ۵۹) میں ارشادِ الٰہی ہے: { یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا} ’’مومنو! اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحبِ حکومت ہیں اُن کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہوجائے تو اُس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے۔‘‘ سورۃالنساء کی آیت (۶۵) کے نزول کا ایک سبب: اس آیت کی شانِ نزول میں ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہِ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی وضاحت کی ہے۔ صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے اور ایک آدمی کا کھیت سیراب کرنے والے نالے کے پانی پر جھگڑا ہوگیا۔ معاملہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صورت حال کا جائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے۔[1] اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: { فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} [النساء: ۶۵] ’’تمھارے رب کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمھیں منصف نہ بنائیں
Flag Counter