Maktaba Wahhabi

373 - 611
اختلاف کا حل: 1. اگر کبھی کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اس چیز کو اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لے جائو اور وہاں سے جو فیصلہ صادر ہو، اسے قبول کرلو، جیسا کہ سورۃ النساء (آیت: ۵۹) میں فرمانِ الٰہی ہے: { فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا} ’’پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں تنازع ہوجائے تو اُسے اﷲ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اﷲ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔‘‘ 2. جب اﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کردیں تو اسے بلا چوں و چرا قبول کرلینا ہی ایمان کی سلامتی کا ضامن ہے۔جیسا کہ سورۃ النساء (آیت: ۶۵) میں ارشادِ الٰہی ہے: { فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} ’’(اے پیغمبر!) تیرے پروردگار کی قسم! وہ مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے جھگڑوں کا فیصلہ تجھ سے نہ کروائیں اور پھر تیرے فیصلے سے ان کے دِلوں میں کچھ اُداسی نہ ہو، بلکہ (خوشی خوشی) مان کر منظور کر لیں۔‘‘ 3. اس آیت سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف دل میں ذرّہ بھر بھی تنگی اور ناپسندیدگی کی جائے تو یہ ایمان کے منافی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ )) [1] ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشِ نفس میرے لائے ہوئے طریقے (دین) کے تابع نہ ہو۔‘‘ 4. جب اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی فیصلہ کر دیں تو پھر کسی کو یہ اختیار نہیں کہ اپنی مرضی سے کوئی اور راہ
Flag Counter