Maktaba Wahhabi

374 - 611
اپنائے، بلکہ اُس فیصلے کو قبول کرنا ہی ہوگا، چنانچہ سورت احزاب (آیت: ۳۶) میں ارشادِ الٰہی ہے: { وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا} ’’اورکسی مَرد یا عورت کے لیے یہ نہیں ہوسکتا کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کسی بات کا حکم کر دیں تو پھر ان کو اس بات میں کوئی اختیار رہے اور جو کوئی اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فرمان نہ مانے (اور دوسروں کی رائے پر چلے) تو وہ کھلا گمراہ ہوچکا۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ کسی آیت یا حدیث کے مقابلے میں کسی مجتہد کی رائے پر عمل نہیں کرنا چاہیے، بلکہ جونہی کوئی آیت یا حدیث ملے، اُسے سر آنکھوں پر رکھیں اور مجتہد کی رائے صد احترام کے باوجود ترک کر دیں، کیونکہ اسی میں ایمان کی سلامتی اور گمر اہی سے بچاؤ ہے۔ غور کریں: ٭ اﷲ تعالیٰ کے عطا فرمودہ اصول ’’اپنے تنازعات کو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف پھیردو۔‘‘ کے پیشِ نظر جب اس جشنِ میلاد جیسے اختلافی مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کتابِ الٰہی کو کھولیں گے تواس کے تیس پاروں یا ایک سو چودہ سورتوں کو اوّل تا آخر پڑھ جائیں، آپ کو کوئی ایک بھی ایسی آیت نہیں ملے گی جس سے مروّجہ جشن منانا ثابت ہو، لہٰذا عدالتِ الٰہی کا فیصلہ میلاد منانے والوں کے حق میں نہ ہوا اور جس کام کا اﷲ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا، اسے سرانجام دے کر اجر و ثواب کی توقع رکھنا بے کار ہے۔ ٭ جب ہم ارشادِ الٰہی کے مطابق دوسرے ثالث یا عدالتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا رُخ کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور سیرتِ عطرہ کا مطالعہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی ولادت کے دن جشن منایا اور نہ اس بات کا کسی کو حُکم فرمایا ہے۔ یہ بات بھی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید غربت و افلاس کی وجہ سے ایسا نہ کیا ہو، بلکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کو محدود معنوں میں قدرے تنگدستی کی زندگی بھی سمجھ لیا جائے تو ہجرت ِمدینہ کے بعد دس سال کے دَوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دولتِ اسلامیہ کے بانی و حاکم ہوگئے تھے۔ عرب وعجم اور ممالکِ مشرق ومغرب کے تمام خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر ہوگئے تھے۔
Flag Counter