Maktaba Wahhabi

377 - 611
میں دیا، جس کی تالیف پر اسے ملک مظفر نے ایک ہزار دینار انعام دیا تھا۔[1] اس مولوی ’’ابن دحیہ‘‘ کو کبار علماے حدیث نے کذاب، ناقابلِ اعتبار، غیر صحیح النسب، بے تُکی اور فضول باتیں کرنے والا قرار دیا ہے۔ جس کی تفصیلات ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ ( ۷/ ۱۳/ ۱۳۷) اور ’’لسان المیزان‘‘ (۴/ ۲۹۶، ۲۹۷) میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ سورت کہف (آیت: ۱۰۵) میں فرمانِ الٰہی ہے: { اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا} ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ پس اس لیے ان کے سارے اعمال (کفر کی وجہ سے) ضائع ہوگئے۔ قیامت کے روز ہم انھیں کوئی وزن نہ دیں گے۔‘‘ بہر حال لوگوں کی باتیں ہمارے لیے دین نہیں، ہمارا دین وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ِمبارکہ سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات (۱۲/ ربیع الاول ۱۱ھ) تک سے ہمیں ملتا ہے، وہی ہمارا دین ہے اور ہماری ہدایت کے لیے کافی ہے اورہم پر فرض ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب کریں۔ لیکن۔۔۔ اے ہوش و گوش رکھنے والو! ذرا غور کرو: وہ ایمان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ سکھائے کس کام کا؟ وہ محبت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مطہرہ پر چلنا نہ سکھائے کس کام کی؟ وہ ادب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا نہ سکھائے کس کام کا؟ وہ پیار اور محبت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے کا سلیقہ نہ سکھائے وہ جذبہ کس کام کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس پر مر مٹنے کا جذبہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ سکھائے کس کام کا؟ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حقوق ادا کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا ہی محبت ہے۔ جو لوگ حیلوں بہانوں سے جانتے بوجھتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور فیصلوں کو پس پشت ڈالیں یا
Flag Counter