Maktaba Wahhabi

534 - 611
کے وہم و گمان میں پیدا نہیں ہوا ہوگا، کیونکہ توبہ کرنے کی بدولت آپ کا شمار ان کامیاب لوگوں میں ہو جائے گا جن کا ذکر قرآنِ کریم کی سورۃ النحل (آیت: ۹۷) میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایاہے: { مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ} ’’مرد ہو یا عورت جو کوئی ایمان کے ساتھ نیک کام کرے توہم (دنیا میں) اس کی زندگی پاک کریں گے اور ان (ایسے لوگوں)کو ہم (قیامت کے دن) ضرور بہتر کاموں کا بدلہ دیں گے۔‘‘ ایک مومن جب عملِ صالح اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے بدلے میں پاکیزہ زندگی عطا فرما دیتا ہے۔ پاک زندگی میں حلال روزی، قناعت، سچی عزت، سکون و اطمینان، دل کی تونگری، اللہ کی محبت اور عبادت کی لذت سبھی چیزیں شامل ہیں۔ یعنی ایمان اور عملِ صالح سے اُخروی زندگی ہی نہیں بلکہ دنیوی زندگی بھی نہایت سکھ اور چین سے گزرے گی جو ایک کافر اور نافرمان کو دنیا بھر کی آسایشوں اور سہولتوں کے باجود میسر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ سے مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہوگا جس نے اس رحمتوں اور برکتوں و الے مہینے میں اپنے رب سے سچی توبہ کر کے عمل صالح کے ساتھ اپنی اخروی زندگی کا سامان تیار نہ کر لیا ہو، کیو نکہ یہ ایک مومن کا شیوا نہیں کہ اس رحمت اور برکت والے مہینے کو دنیا کما نے میں ضائع کردے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے رب سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کے گناہوں کو معاف فرمائے۔ آمین رمضان کے روزوں کی قضا: رمضان کے روزوں کی قضا فور اً ضر وری نہیں، جس وقت بھی آدمی کو روزوں کی قضا کا وقت ملے روزے رکھ لے۔ روزوں کے کفارے کا بھی یہی حکم ہے۔ روزوں کی قضا میں دیر کرنے کی اجازت اس فرمانِ الٰہی میں ہے: { وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ} [البقرۃ: ۱۸۵] ’’تم میں سے جو کوئی بیمار یا مسافر ہو، وہ دوسرے دنوں میں قضا کر لے۔‘‘
Flag Counter