Maktaba Wahhabi

617 - 611
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر دیوارِ کعبہ کے اس حصے کے ساتھ چمٹنا ممکن نہ ہو تو پاس کھڑے ہو کر دعا کرلیں اور اس التزام کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں۔ رکنِ یمانی کو چھونا: طواف کے ساتوں چکروں میں سے ہر چکر میں رکنِ یمانی کو ہاتھ سے چھونا بھی سنت وثواب ہے۔ مگر رکنِ یمانی کوبوسہ دینا یا اسے ہاتھ سے چھو کر اپنے ہاتھ کو چومنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ دورانِ طواف کی دعائیں اور لا یعنی گفتگو سے اجتناب: یہ طواف، حج و عمرہ کا ایک اہم رکن ہے اورقربِ کعبہ کی بنا پر قبولیتِ دعا کا خصوصی موقع بھی۔ لہٰذا حُجاج کرام کو چاہیے کہ دورانِ طواف اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کریں اور دعائیں مانگیں اور لایعنی گفتگو سے کلی اجتناب کریں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً مروی ہے: ’’بیت اللہ کا طواف کرنا بھی نماز ہی ہے، لیکن اللہ نے اس میں بات چیت کو حلال قرار دیا ہے۔ بس جو کوئی بات کرے تو اسے چاہیے کہ کوئی بھلائی کی بات کرے۔‘‘[1] ایک دعا کے سوا دورانِ طواف کوئی مخصوص دعا یا ذکر کسی صحیح سند سے ثابت نہیں۔ لہٰذا قرآن و حدیث کی عام دعائوں میں سے جوجی چاہے ذکر و دعا کریں جائز ہے۔ ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (( سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی ا للّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ مَابَیْنَ الرُّکْنَیْنِ: {رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ} )) [البقرۃ: ۲۰۲] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکن یمانی اور حجرِ اسود کے ما بین یہ کہتے ہوئے سنا: اے اللہ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔‘‘ قرآن و سنت سے ثابت شدہ اور مسنون دعائیں پڑھنے ہی میں تمام تر فضائل وبرکات، اجر و ثواب اور اطمینانِ قلب و روح ہے اور اگر وہ یاد نہ ہوں تو پھر جو جی میں آئے اور جس زبان میں بھی ہو، دعائیں کرتے جائیں، کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے نہایت آسان دین لائے، مگر افسوس ہم نے ان آسانیوں سے فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ دین کو خود ہی مشکل بنا لیا ہے۔
Flag Counter