Maktaba Wahhabi

402 - 611
12. توقیتِ مسح: اب رہی یہ بات کہ جب وضو کرکے موزے یا جرابیں پہن لی جائیں تو کتنے عرصے کے لیے ان پر مسح کیا جاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں دس سے زیادہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ مقیم کے لیے ایک دن رات یعنی چوبیس۲۴ گھنٹے اور مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں یعنی بہتّر گھنٹے تک ان موزوں یا جرابوں پر مسح کرلینے کی گنجایش ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم، سنن نسائی اور ابن ماجہ میں شریح بن ہانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور موزوں پر مسح کی مدت کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے کہا کہ تم ابنِ ابی طالب یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلے جاؤ اور ان سے جاکر پوچھو، کیونکہ وہ سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اس بات کو مجھ سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے مسح کی مدت کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے بتایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (موزوں یا جرابوں پر) مسح کی مدت مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر کی ہے۔‘‘[1] تیمّم قارئینِ کرام! یہاں تک تو مسنون غسل و طہارت اور وضو کرنے کے ضروری احکام و مسائل تھے جن کا تعلق پانی سے ہوتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی ایسے مقام پر ہوں جہاں پانی ہی میسر نہیں، جس سے غسل یا وضو کیا جاسکے یا اتنا نہیں جو پینے جیسی اہم انسانی ضرورت سے بچ کر وضو کے کام لایا جائے اور کبھی یوں بھی ہوسکتا ہے کہ ہم سفر میں نہیں، پانی بھی موجود ہے مگر کسی بیماری کی وجہ سے غسل و وضو کرنا جان لیوا اور سخت مضر ہوتا ہے۔ سفر و حضر میں کبھی ان حالات کا پیش آجانا کوئی بعید از امکان نہیں تو ایسے میں شریعتِ اسلامیہ کے پاس اس کا کیا حل ہے؟ اس سلسلے میں سب سے پہلی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کسی خاص ملک وقوم اور کسی محدود وقت و زمانے کے لیے نہیں کہ ان مسائل کے حل کا دائرہ محدود ہو، بلکہ دینِ اسلام ایک عالمگیر دین ہے۔ یہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے
Flag Counter