Maktaba Wahhabi

160 - 611
اس تک ہرگز نہیں پہنچ سکتیں، بلکہ ساری کی ساری بر ائیاں اس کی ایمانی چٹانوں سے ٹکراکر ریزہ ریزہ ہو جائیں گی، کیو نکہ وہ اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کر چکا ہے، اس کے نزدیک اب اس معاملے میں تبادلہ خیال کی بھی گنجایش باقی نہیں۔ اس طرح ایمان و عقیدہ ایسی چیزیں ہیں جن کی دست یابی یونیور سٹیوں کی چا ر دیواری اور کتابوں کی سیاہ سطروں میں ضروری نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ آسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر کس و ناکس کے لائق بنایا، تاکہ نادار اپنی محتاجی کے باعث محروم نہ رہ سکے اور صاحبِ ثروت اپنی دولت سے اسے خرید نہ سکے۔ بزرگوں کا احترام: میری مسلمان بہنو(اور بھائیو!) بزرگوں کے احترام کے سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں ان صالحین کے ساتھ بہت پیار ہے، کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ہیں، ان کا احترم ہم سب مسلمانوں پر واجب ہے، چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے: ’’جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی، میرا اس کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے۔‘‘[1] اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ اولیاء اللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری ہے اور ان سے بغض و عناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے خلاف اعلانِ جنگ فرماتا ہے۔ لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کے غضب سے پناہ مانگتے ہیں اور اللہ کے ولیوں کے ساتھ بہت پیار اور محبت کرتے ہیں، وہ بزرگانِ دین جو علم وفضل اور زہد و تقویٰ میں ہم سے بہت آگے ہیں، ان کا احترام واجب ہے، اسی لیے صحابہ کرام علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے ’’رضي اﷲ عنھم‘‘ اور ان کے بعد والے بزر گوں کا نام لیتے ہوئے ’’رحمۃ اﷲ علیھم‘‘ کہنا ان کے ادب واحترام کا تقاضا ہے، لیکن اولیا و صالحین کی محبت، احترام یا تعظیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے نام پر بدعات و خرافات کرنا شروع کردیں، ان کی قبروں پر گنبد اور قُبے بنائے جائیں، ان کی قبروں پر سالانہ عرسوں کے نام پر میلوں کا اہتمام کیا جائے، ان کی قبروں کو غسل دیا جائے، ان پر چادریں چڑھائی جائیں اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے، جیسا کہ بدقسمتی سے اولیاء اللہ کی محبت کے نام پر ہمارے ہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے، حالانکہ یہ محبت نہیں بلکہ یہ ان کی عبادت ہے، جو شرک اور ظلمِ عظیم ہے۔ جیسا کہ سورۃ
Flag Counter