Maktaba Wahhabi

61 - 611
{اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ} ’’مومن تووہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر (دل سے) یقین لائے، پھر ان کو (ایمان کی باتوں میں کسی طرح کا) شک نہیں رہا اور انھوں نے اپنی جان اورمال سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوشش کی، ایسے ہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ خیر کی بات کرے، ورنہ خامو ش رہے، اور اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور اپنے مہمان کا اکرام کرے۔‘‘[1] یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خیر کی بات کرنا، پڑوسی کے حقوق ادا کرنا اور مہمان نوازی کرنا؛ یہ سارے اعمال ایمان میں شامل ہیں۔ 2. نواہی سے اجتناب: اعضا کے اعمال میں اوامر کے ساتھ ساتھ اجتنابِ نواہی بھی شامل ہے۔ یعنی ان اعمال سے بچنا جن سے اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے، اسی طرح معاصی (اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں) سے اجتناب کرنا بھی ایمان میں شامل ہے۔ 1. ایمان باﷲ: ارکانِ ایمان میں سے افضل رکن اللہ پر ایمان لانا ہے، جیسا کہ حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا: (( أَيُّ اْلأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ )) ’’کون سا عمل افضل ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (( اِیْمَانٌ بِاللّٰہِ وَرَسُوُلِہٖ ))[2]’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔‘‘ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ جب جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
Flag Counter