Maktaba Wahhabi

526 - 611
ہے اور امام ابوحنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل اور امام بخاری رحمہم اللہ وغیرہ جمہور ائمہ کے نزدیک وہ روزہ چھوڑنے کی صورت میں بطورِ فدیہ روزانہ ایک مسکین کا کھانا دے دیا کریں۔[1] اگر کوئی مرد یا عورت یا میاں بیوی بوڑھے بھی ہوں اور فقیر ومحتاج بھی تو ایسے لوگوں پر نہ روزہ فرض ہے اور نہ فدیہ، کیونکہ ارشادِ الٰہی ہے: { لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا} [البقرۃ: ۲۸۶] ’’اللہ تعالیٰ کسی کو اُس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘[2] حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت: حمل یا چھوٹے بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو روزہ رکھنے سے اگر اُسے یا بچے کو یا دونوں کو نقصان پہنچے یا اندیشہ ہوتو ایسی عورت بھی رمضان کے کل یا جتنے روزے چھوڑے اُسے اجازت ہے، البتہ بعد میں اتنے روزوں کی قضا کرلے چنانچہ سنن ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور آدھی نماز کم کردی اور حمل والی اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت سے روزہ کم کردیا۔‘‘[3] اس سے معلوم ہوا کہ مسافر جب مقیم ہوجائے تو اُس پر روزے کی قضا ہے، ایسے ہی حمل یا بچے والی عورت پر بھی قضا ہے کیونکہ ان دونوں کا حکم بھی مسافر والا ہے جس پر قضا واجب ہے۔ حیض ونفاس والی عورت: صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم حیض سے ہوتیں تو ہمیں روز کی قضا کا تو حکم دیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔‘‘[4]
Flag Counter