Maktaba Wahhabi

52 - 611
کی اللہ کے علاوہ پرستش کی جاتی ہے، جیسا کہ سورۃ الحج (آیت: ۶۲) میں ارشادِ الٰہی ہے: { ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ھُوَ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ} ’’یہ اس لیے کہ اللہ ہی برحق ہے اور جس چیز کو (کافر) اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور اس لیے کہ اللہ رفیع الشان اور سب سے بڑا ہے۔‘‘ اسی طرح مسند احمد اور مصنف ابن ابی شیبہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’افضل اسلام اللہ پر ایمان ہے۔‘‘[1] شہادتین: اللہ تعالیٰ پر ایمان ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا اقرار ہے۔ یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اس کے سوا کوئی خالق و مالک نہیں اور ہر قسم کی عبادت اسی کے لیے خاص ہے جو ہمارا خالق و رازق ہے، جو حی اور قیوم ہے، جو علیم و خبیر ہے، جو سمیع و بصیر ہے اور جس نے حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطاع بناکر مبعوث فرمایا،جبکہ ’’مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ کہہ کر اس بات کی شہادت گواہی دینا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ سورۃ النور (آیت: ۶۲) میں فرمانِ الٰہی ہے: { اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ} ’’مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔‘‘ ایسانہ ہو کہ زبان پہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا ورد ہو اور دل و دماغ میں اس کا کوئی اثر نہ ہو۔ اگر ایسی بات ہے تو اس کی شہادت غیر مفید ہوگی اور وہ دیگر منافقوں کی طرح کافر ہوگا۔ لہٰذا کلمہ شہادت ایک کلمہ ہی نہیں جسے زبان سے ادا کر لیا جائے تو کافی ہو جائے گا۔ نہیں! بلکہ اس کا ایک عظیم مفہوم ہے جس کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ یعنی جب کوئی شخص کلمہ پڑھے تو ساتھ ہی ساتھ اس کے مفہوم کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرتے ہوئے اس کے تقاضوں کو پورا کرے، نیز اس کے منافی تمام امور سے اجتناب کرے۔ ایسی صورت ہی میں وہ حقیقی مسلمان ہو گا۔
Flag Counter