Maktaba Wahhabi

338 - 611
ہجرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اعمال و اخلاق حیاتِ مبارکہ کے آخری دن اور وفات حمد و ثنا اور خطبہ مسنونہ کے بعد: سورت آل عمران (آیت: ۱۳۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ} ’’جو فراغت اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کیے جاتے ہیں اور غصہ پی جاتے ہیں (باوجود قدرت کے کسی کو تکلیف نہیں دیتے) اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں (ان کا قصور معاف کر دیتے ہیں) اور اللہ پسند کرتا ہے احسان کرنے والوں کو۔‘‘ ہجرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے لیکن تاحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت نہیں ملی تھی، تاہم اہلِ مکہ کی اس قدر سختیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہجرت کی اجازت دے دی۔ سفر جاری کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تین دن تک غارِ ثور میں رہے، پھر ساحل کی راہ سے روانہ ہوئے۔ اس غار میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تین دن قیام فرمایا۔ اس دوران میں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما وہاں بکر یاں لے جا کر دود ھ پہنچاتیں اور حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما قریش کی خبریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا کرتے تھے۔ قریشِ مکہ تلاش میں سرگرداں غار کے منہ تک بھی پہنچ گئے۔ بخاری و مسلم شریف میں حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اگر ان (کفار) میں سے کوئی اپنے قدموں کے نیچے دیکھ لیتا تو ہمیں پالیتا اور قسم اٹھا کر فرمایا: مجھے اپنی جان کا کوئی خطرہ
Flag Counter