Maktaba Wahhabi

616 - 611
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کا طواف اونٹ پر بیٹھ کر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب حجرِ اسود کے سامنے آتے تو اپنے ہاتھ میں موجود کسی چیز (چھڑی) سے اس کی طرف اشارہ فرماتے اور تکبیر کہتے۔‘‘[1] حجرِ اسود کی فضیلت: حجرِ اسود کو بوسہ دینے اور چُھونے کی بڑی فضیلت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حجرِ اسود کو اٹھائے گا، اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے یہ دیکھے گا اوراس کی زبان ہوگی جس سے یہ بولے گا اور ہر اس آدمی کے لیے گواہی دے گا جس نے ایمان کے ساتھ حصولِ ثواب کے لیے اُسے چُھوا (یا بوسہ دیا) ہوگا۔‘‘[2] حجرِ اسود اور رکنِ یمانی کو چُھونا گناہوں اور خطائوں کو مٹا دیتا ہے۔ ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’حجرِ اسود جنت کا پتھر ہے اور یہ برف سے بھی زیادہ سفید و شفاف تھا مگر مشرکین کے گناہوں نے اسے کالا کر دیا ہے۔‘‘[3] حجرِ اسود کے ان فضائل کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ ہرشکل میں اسے بوسہ دینے یا ہاتھ سے چھونے کی کوشش کی جائے، بلکہ صرف اشارہ کر دینے سے بھی یہ فضیلت حاصل ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ طریقہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیم فرمودہ ہے۔ لہٰذا ’’بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کہہ کر طواف شروع کر دیں، حجرِ اسود سے چل کر وہیں تک پہنچنے پر ایک چکر مکمل ہوگا اور ایسے سات چکر لگانے ہوتے ہیں۔ ملتزم سے چمٹنا اور دعائیں کرنا: حجرِ اسود اور بابِ کعبہ کے درمیان والی جگہ جس کا نام ’’ملتزم‘‘ ہے، ا س کے ساتھ چمٹنا اور اس پر اپنا سینہ، ہاتھ، بازو اورچہرہ رکھنا بھی مسنون ہے، جیسا کہ سنن ابو داود و ابن ماجہ میں مذکور بعض احادیث سے پتا چلتا ہے۔[4] وہاں اللہ تعالیٰ سے دعا ئیں مانگیں اور اپنی حاجتیں طلب کریں۔
Flag Counter