Maktaba Wahhabi

569 - 611
چنانچہ جو لوگ بخل اور حبِ مال میں پھنس کر اس سے غافل رہے، وہ اللہ کے ان دشمنوں کے ساتھ ہوگئے، جنھوں نے اللہ و رسول کی اطاعت پر مال و دولت کو ترجیح دی۔ زکات کے مصارف: اسلام میں زکات کا بہت بڑا مقام ہے اور نماز و شہادتین کے بعد اس کا عظیم رکن ہے جو مستحق لوگوں کو ادا کر دینا مسلمانوں پر واجب ہے۔ جیسا کہ سورۃ التوبہ (آیت: ۶۰) میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں بیان کیا ہے: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہ ِوَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} ’’صدقات (زکات و خیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنانِ صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیفِ قلب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرض داروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں(کی مدد) میں(بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے۔ یہ حقوق) اللہ کی طرف سے مقرر کر دیے گئے ہیں اور اللہ خوب جاننے والا (اور) حکمت والاہے۔‘‘ زکات کے آٹھ (۸) مصارف و مقامات ہیں، جن کا ذکر سورۃ التوبۃ (آیت: ۶۰) میں درج ذیل ہے: 1، 2 فقیر اور مسکین: یہ دونوں باہم قریب قریب ہیں، حتیٰ کہ ان کا ایک دوسرے پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ تاہم دونوں میں یہ بات قطعی ہے کہ جو شخص حاجت مند ہو اور ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے وسائل سے محروم ہو، اُسے فقیر و مسکین کہا جاتا ہے۔ مسکین کی تعریف میں ایک حدیث آئی ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسکین گھومنے پھرنے والا نہیں ہوتا کہ وہ ایک ایک یا دو دو لقمے یا کھجور کے لیے گھر گھر پھرتا ہے، بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے۔‘‘ اس لیے پیشہ ور گداگروں کے بجائے، مہاجرین، دین کے طلبا، علما اور سفید پوش ضرورت
Flag Counter