Maktaba Wahhabi

372 - 611
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش ۱۲/ ربیع الاوّل کو نہیں، بلکہ صحیح تاریخ ۹/ ربیع الاوّل ہے۔ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ضرور ۱۲/ ربیع الاوّل کو ہوئی تھی، جیسا کہ معروف کتبِ تاریخ و سِیَر سے معلوم ہوتا ہے، جس کی مفصّل تحقیق کا یہ موقع نہیں۔ یہاں صرف ہمیںاتنا ہی عرض کرنا ہے کہ ہمارے بھائی لوگ جس تاریخ کو خوشیاں مناتے ہیں، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدایش نہیں، بلکہ یومِ وفات ہے اور چند سال پہلے بلکہ آج تک بارہ وفات کے نام سے مشہور ہے۔ تو پھروفاتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر خوشیاں۔۔۔؟ ایں چہ بوالعجبی است؟ اﷲ تعالیٰ اس پہلو پر توجہ دینے اور سوچنے کی توفیق بخشے۔آمین مروجہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت۔۔۔ کتاب و سنت کی روشنی میں: پورے عالم کے مسلمانوں اور بالخصوص اسلامیانِ برصغیر کا ایک طبقہ اس بات کا عادی ہوچکا ہے کہ بارہ ربیع الاوّل کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جشن منائے اورجلوس نکالے، اَکل و شرب کی دعوتیں کرے، بھنگڑے ڈالے اور قوالیاں سُنے۔جبکہ دوسرا طبقہ اس جشن کو شرعاً نا جائز قرار دیتا ہے۔ تناز عات کو ہوا نہ دو: اس مختلف فیہ مسئلے اور ایسے ہی دیگر اختلافی مسائل کے سلسلے میں قرآ نِ پاک نے ہمیں کئی بہترین اصول دیے ہیں، جن میں سے پہلا اصول ہے: ٭ تنازعات کو اوّل تو سرے سے ہوا ہی نہ دی جائے، تاکہ اُمت کی اجتماعی قوت میں کمزوری نہ پیدا ہو، جیسا کہ سورۃ الانفال (آیت: ۴۶) میں ارشاد ِالٰہی ہے: { وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ} ’’اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میںجھگڑو نہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑجائے گی، صبر سے کام لو، یقینا اﷲ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
Flag Counter