Maktaba Wahhabi

502 - 611
اللہ تعالیٰ کے حکم سے انحراف نہیں کرنے دیتیں۔ یکسوئی و تنہائی کے لمحات میں اگر اسے فکرِ آخرت اور خوفِ الٰہی نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے لطیف و خبیر اور علیم ورقیب ہونے پر اس کا مضبوط و محکم ایمان نہ ہوتو وہ کبھی روزے کی تکمیل نہ کرپائے۔ یہ دولتِ ایمان ہی کا کرشمہ ہے کہ آتش بار گرمی میں بھی وہ روزے دار کو ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز نہیں ہونے دیتا اور ایک گھونٹ بھی گلے سے نیچے نہیں اتارنے دیتا۔ یہ امتیازی اور انفرادی حیثیت تمام عبادات میں سے صرف روزے ہی کو حاصل ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے خاص میرے لیے رکھے تو میں ہی ان کی جزا دوں گا۔ روزے دار اپنی ساری خواہشات اور کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑتا ہے۔ ایسے روزے دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، ایک خوشی وہ جب روزہ دار روزہ افطار کرتے وقت راحت اور خوشی محسوس کرتا ہے اور دوسری خوشی اسے اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہوگی۔‘‘[1] اندازہ فرمائیں! روزے کی اس امتیازی و انفرادی حیثیت و مقام میں دوسرا کوئی عمل اس کا مقابلہ کرپائے گا؟ ہر گز نہیں اور اس کا مستحق کون ہوگا؟ صرف وہ روزے دار جس نے صحیح معنوں میں روزے کے تقاضے کو پورا کیا ہو گا۔ جیسے جھوٹ، غیبت، بد گوئی، گالی گلوچ، دھوکا، فریب دینا اور اسی قسم کی تمام بے ہودگیوں اور بد عملیوں سے جو اجتناب کرے گا۔ لہٰذا جب آپ روزے سے ہوں تو کسی قسم کی فحش گوئی اور بیہودہ باتیں نہ کرے، اگر کوئی آپ کو بُرا بھلا کہے یا لڑنے کی کوشش کرے تو آپ اسے کہیں کہ میں روزے سے ہوں۔[2] 7. روزے کے تقاضے: ’’روزے کی حالت میں جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے ( اور اس کے بھوکا پیاسامرنے کی اسے کوئی ضرورت نہیں)۔‘‘ [3]
Flag Counter