Maktaba Wahhabi

554 - 611
آج تو تمام مساجد میں نہانے کا بھی انتظام موجود ہوتا ہے۔ الغرض نہانے، تیل لگانے اور کنگھا کرنے سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اعتکاف کرنے والا اپنی بیوی سے بات چیت بھی کرسکتا ہے اور اس کے جانے پر جاے اعتکاف سے نکل کر الوداع بھی کرسکتا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور سننِ اربعہ الّاالترمذی میں اُم المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرما رہے تھے کہ ایک رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے گئی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کی اور پھر میں کھڑی ہوئی اور پلٹی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے الوداع کہنے کے لیے کھڑے ہوئے۔[1] ممنوعاتِ اعتکاف: سنن ابو داود میں ہے: ’’اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ نہ تو مریض کی عیادت ومزاج پرسی کرے، نہ کسی جنازے میں شرکت کے لیے جائے اور نہ اپنی بیوی کو چھوئے اور نہ بوس و کنار کرے۔‘‘[2] معتکف کو فضول گفتگو سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ بخاری و مسلم میںیہ بھی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ(جب بھی بات کرے تو) اچھی بات کرے یا پھر چپ رہے۔‘‘ یاد رہے کہ دورانِ اعتکاف اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے اور روزہ نہ رکھ پائے تو اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا۔ اعتکاف مکمل کرے اور رمضان کے بعد اُس روزے کی قضا کرلے۔ عورتوں کا اعتکاف: مردوں کی طرح ہی عورتوں کے لیے بھی اعتکاف مشروع اورباعثِ اجر و ثواب ہے، کیونکہ بخاری و مسلم میں مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتg اعتکاف کیا کرتی تھیں۔[3]
Flag Counter