Maktaba Wahhabi

148 - 611
اس کے باوجود عبادت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھہرا لیتے ہیں اور یوں اکثر لوگ مشرک ہیں، یعنی ہر دور میں لوگ توحیدِ ربوبیت کے تو قائل رہے ہیں لیکن توحیدِ الوہیت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ آج کے قبر پرستوں کا شرک بھی یہی ہے کہ وہ قبروں میں مدفون بزرگوں کو صفاتِ الوہیت کا حامل سمجھ کر انھیں مدد کے لیے پکارتے ہیں اور عبادت کے کئی مراسم بھی ان کے لیے بجا لاتے ہیں۔ یوں بہت سارے لوگ اللہ پر ایمان رکھنے کے بعد بھی شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور وہ مشرک ہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم اپنے سے پہلوں کے نقشِ قدم پر چلو گے جس طرح اقوامِ سابقہ قبر پر ستی کے شرک میں مبتلا تھیں۔ یعنی ان کے ہر ہر طریقے کی پیروی کرو گے، خواہ اس کا تعلق عبادت سے ہو یا عادت سے، جس طرح سے پہلی امتوں میں شرک تھا، اسی طرح اس امت میں بھی شرک پایا جائے گا، لہٰذا مشرکینِ مکہ اور سابقہ قوموں کی طرح ہی آج مسلمانوںمیں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو صالحین کی قبروں پر عبادت کر رہے ہیں، فرق صرف ناموں کا ہے، اُنہوں نے کچھ اور نام رکھے تھے اور اِنہوں نے کچھ اور رکھ لیے ہیں، لیکن مسلمان ان کاموں کو شرک نہیں سمجھتے، جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اقوام سابقہ کے شرک اور ان کی ہلاکت کو مدنظر رکھ کر بار بار ان حرکتوں سے خبردار کیا کہ تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنا نا، میں تم کو ایسا کرنے سے منع کر رہا ہوں۔ قبروں کی زیارت کا مقصد: ابتداے اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، کیونکہ دورِ جاہلیت میں لوگوں کے عقائد غلط تھے اور قبروں پر خرافات کا ارتکاب کیا جاتا تھا، کیونکہ جو چیز پہلے شرک کا سبب بنی وہ قبریں ہی تھیں، اس بنا پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام علیہم السلام کی اسلامی تربیت فرمائی اور کچھ عرصہ بعد جب لوگوں کے ایمان مضبوط ہو گئے اور عقائد میں توحید کی خوشبو رچ بس گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، لیکن اب تم جاسکتے ہو، کیونکہ یہ تمھیں آخرت کی یاد دلائے گی۔‘‘[1]
Flag Counter