Maktaba Wahhabi

508 - 611
12. روزے کی اہمیت اور تارک کے لیے وعید: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے بلا عذر یا بلا مرض رمضان کا ایک روزہ بھی ترک کیا، ساری عمر کے روزے بھی اس کا کفارہ نہیں بن سکتے۔‘‘[1] روزے کا ایک تربیتی پہلو: آج ہمارے معاشرے میں نیکی مغلوب اور بدی غالب ہے، شر خوب پھل پھول رہا ہے اور خیر سکڑتا اور سمٹتا جارہا ہے، حالانکہ ہم سالہاسال سے رمضان المبارک کے روزے رکھتے چلے آرہے ہیں، لیکن اس کے باوجود نیکی کا عمومی ماحول بن رہا ہے نہ ہمارے اندر کوئی تبدیلی پیدا ہورہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک رسم کے طور پر روزہ رکھ لیتے ہیں اور اس کی روح کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ایک محدود وقت کے دوران میں ہم صرف کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں، لیکن محرماتِ ابدیہ سے اجتناب ضروری نہیں سمجھتے۔ گویا تقوے کی اصل حقیقت سے ہم محروم ہی رہتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ روزے سے ہماری ایمانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے نہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف راسخ ہوتا ہے، جبکہ برائیوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایمان مستحکم، آخرت پر یقین مضبوط اور دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہو۔ جب ایسا ہوجاتاہے تو پھر انسان نہ صرف یہ کہ خود برائی کا ارتکاب نہیں کرتا، بلکہ برائی کو ہوتے ہوئے دیکھنا بھی اس کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ ایمان و تقویٰ اسی جذبے اور شعور کا نام ہے۔ اس لحاظ سے رمضان المبارک کا مہینا بہت ہی فضیلت کا حامل ہے کہ اس کی غرض و غایت ہی گناہوں سے بچنے کی تربیت کرنا ہے۔ جو شخص گناہوں سے رکنا اور بچنا چاہتا ہو تو رحمتوں اور برکتوں کے اس مقدس مہینے میں تھوڑی سی کوشش اور ارادے ہی سے اس کی طبیعت نیکی کی طرف راغب اور گناہوںسے بچنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ جس نے مہینے بھر دن کے اوقات میں ترکِ طعام کے ساتھ رات کے اوقات میں قیام کرکے اپنے
Flag Counter