Maktaba Wahhabi

543 - 566
حقیقت میں وہ علم نہ ہو۔ اس لیے کہ حقیقی اور سچا علم وہ ہے جس سے انسان کو اپنے رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس علم سے انسان میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور تواضع و انکساری پیدا ہوتی ہیں ، تکبر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ﴾ (الفاطر:۲۸) ’’بے شک اللہ تعالیٰ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔‘‘ دوسرا سبب:… علم میں وہ انسان دخل اندازی شروع کردے جو نفس کا خبیث اور بد اخلاق [وبد کردار] ہے۔ جب یہ انسان کوئی علم کی بات یاد کرلیتا ہے تو اسے تکبر کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ مواد مل جاتا ہے ، اس طرح سے اس کا تکبر بڑھتا ہی رہتا ہے۔ جیسا کہ[ایک شاعر] معری العاری اپنی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے: وَإِنِّيْ إِنْ کُنْتُ الْأَخِیْرَ زَمَانُہٗ لَآتٍ بِمَا لَمْ یَأْتِ بِہِ الْأَوَائِلُ ’’ اور بے شک میں اگرچہ زمانے کے اعتبار سے آخری زمانے میں آیا ہوں۔ لیکن میں ایسی چیز لایا ہوں جو پہلے لوگ نہیں لاسکے۔‘‘[1] یہ بھی تکبر ہے: جیسا کہ بعض چھوٹے درجہ کے طالب علم کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بڑے علمائے کرام کے برابر سمجھنے لگتے ہیں، اور وہ کہتے ہیں: نَحْنُ رِجَالٌ وَہُمْ رِجَالٌ۔ ’’ہم بھی مرد ہیں اور وہ بھی مرد تھے۔‘‘ سیّدنا ایوب العطار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ میں نے بشر بن الحارث رحمہ اللہ سے سنا آپ فرما رہے تھے: ’’ ہم سے حماد بن زید نے حدیث بیان کی ،اور پھر فرمایا: ’’ استغفر اللہ ! بے شک اسناد ذکر کرنے سے دل میں تکبر پیدا ہوتا ہے۔‘‘
Flag Counter