Maktaba Wahhabi

475 - 566
طرف کچھ بھی متوجہ نہ ہوئے پھر میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں واپس پلٹ رہے تھے کہ اپنی ران پر ہاتھ ماررہے تھے اور کہہ رہے تھے:’’ انسان تمام چیز وں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر جلد حاضر جوابی پر حیرت ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عذر پر عدم ِ موافقت کا اظہار کیا۔ اسی لیے اپنی ران پر ہاتھ مارا۔ لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں سے بڑھ کراچھے انداز میں مناظرہ و مجادلہ کرسکتے ہیں۔ اگرچہ طبیعت کے لحاظ سے جھگڑا و مناظرہ تمام لوگوں میں موجود ہوتا ہے، مگر لوگوں کے اس میں مختلف درجے ہوتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو کفار کے متعلق فرمایا: ﴿ فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْمًا لُدًّا ﴾ (مریم:۹۷) ’’ہم نے اس قرآن کو تیری زبان میں بہت ہی آسان کر دیا ہے کہ تو اس کے ذریعہ سے پرہیزگاروں کو خوشخبری دے اور جھگڑالو کو ڈرا دے۔‘‘ یعنی حجت بازی کرنے والے اور باطل پر جھگڑا کرنے والے جو کہ حق کو قبول نہیں کرتے۔ اسی لیے اہل باطل کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ﴾ (الزخرف:۵۸) ’’ بلکہ یہ لوگ ہیں محض جھگڑالو۔‘‘ بعض لوگ دوسروں سے زیادہ جھگڑالو اور زبان کے تیز ہونے کے دلائل میں سے ایک دلیل حدیث ِکعب بن مالک رضی اللہ عنہ بھی ہے جب وہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ سیّدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ میں کسی بھی ایسے معرکہ سے پیچھے نہیں رہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑا ہو ، سوائے غزوہ تبوک کے … کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب مجھے یہ خبر
Flag Counter