Maktaba Wahhabi

320 - 566
بن جاتے ہیں۔ بسا اوقات ان کے افعال ایسے ہوتے ہیں جو کہ تعریف کے بجائے مذمت کے قابل ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر کسی کام کو اچھی صورت میں پیش کیا جائے، اور اس پر مدح سرائی کی طلب کی جائے۔ مگر اس کے باطن میں شر پوشیدہ ہو۔ مگر وہ اس فعل کو لوگوں میں رواج دے کر اور اسے مشہور کرکے خوش ہورہے ہوں۔یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل ہیں: ﴿ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ (آل عمران:۱۸۸) ’’وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی تعریفیں کی جائیں آپ انھیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کی ایسی صفات ہوں، اوریہ صفات ایسی ہیں کہ مخلوق سے مدح سرائی اور محبت کا طلب کرنا؛ اور اس کے ترک کرنے پر عقوبت دینا یہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ذات کے شایانِ شان ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ائمہ رشد و ہدایت علمائے کرام اپنے اعمال اور لوگوں کے ساتھ احسان کرنے پر اپنی مدح و تعریف سے سختی سے منع کیا کرتے تھے، اور اس کے ساتھ ہی صرف ایک اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کی حمد و ثنا اور تعریف کرنے کا حکم دیتے جس کی یہ تمام نعمتیں ہیں۔ سیّدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ اس کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔ ایک بار حجاج کرام کے نام خط لکھا۔ جو انھیں پڑھ کر سنایا گیا۔ اس میں لوگوں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم اور ان پر مظالم کے خاتمے کے متعلق حکم دیا گیا تھا۔ اسی خط میں یہ بھی لکھا تھا: ’’ اور ان چیزوں پر کسی کی بھی تعریف نہ کروسوائے ایک اللہ تعالیٰ کے۔اس لیے
Flag Counter