Maktaba Wahhabi

312 - 566
ہیں۔ اللہ کی قسم ! جب تک زندہ رہوں گا کسی کام کی ذمہ داری نہیں لوں گا۔‘‘[1] ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس شخص کا بادشاہوں کے پاس آنا جانا ہو، اوروہ ان کی صحبت میں رہتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے لیے گالی کو گالی نہ شمار کرے ،اورنہ ہی سختی کو سختی شمار کرے۔اور نہ ہی اپنی شان میں کمی و کوتاہی کو گناہ سمجھے۔ اس لیے کہ اس کی عزت اس کی زبان کے شیریں ہونے میں اور اپنے ہاتھ کو روک کر رکھنے میں ہے۔‘‘[2] سیّدنا علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کرسی مل جانے کے بعد اپنے دوست و احباب سے اسی سلوک کے طلب گار ہوتے ہیں جو کہ کرسی ملنے سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ تو جب بھی ایسے ہوجاتا ہے توان کے درمیان محبت کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ ایسی عادت والے انسان کی جہالت ہے۔ اس کی حالت اس انسان کی ہے جو جب نشے میں ہو تو اس سے صحیح حالت والوں کے اخلاق کی سی امید رکھی جائے۔ یہ بات غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کرسی کا بھی ایک ایسا نشہ ہے جیسے شراب کا نشہ ہوتا ہے ،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر نشہ کرسی کا ہے۔ اگر یہ نشہ نہ ہوتا تو کرسی والا کبھی بھی اس کرسی کو آخرت کی دائمی اور ابدی نعمتوں پر ترجیح نہ دیتا۔ کرسی کا نشہ جام و مے کے نشہ سے بہت زیادہ اوربڑھ کر ہے، اور یہ بات محال ہے کہ نشہ میں مست انسان سے عام انسان کے اخلاق و طبیعت کی توقع رکھی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے سب سے بزرگ انسان (سیّدنا موسی علیہ السلام ) کو حکم دیا تھا کہ قبطیوں کے بڑے (فرعون ) کے ساتھ نرمی سے مخاطب ہوں۔ پس کرسی والوں سے نرمی سے بات کرنا ،شرعاً ، عقلاً ، عرفاً مطلوب ہے۔ اس لیے
Flag Counter