Maktaba Wahhabi

302 - 566
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’( دودھ پلانے والی اچھی ہے): اس سے مراد یہ ہے کہ [حکومت حاصل ہونے میں ] جاہ و منصب اور مال کا حصول ممکن ہوتا ہے ، انسان کی بات مانی جاتی ہے، اور جب انسان کو جاہ و منصب مل جاتا ہے تو اسے تمام حسی اور غیر حسی لذتیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔ (اور دودھ چھڑانے والی بری ہے ): اس سے مراد یہ ہے کہ جب اس جاہ و مال کی جدائی کا وقت آتا ہے ، خواہ وہ موت کے وقت ہو یا پھر کسی دوسری وجہ سے۔ [اس وقت جاہ و مال کی جدائی بڑی کربناک ہوتی ہے] اور اسی طرح آخرت کے لحاظ سے اس پر جو امور مرتب ہوتے ہیں ، وہ بھی بڑے کربناک ہوتے ہیں۔ ‘‘[1] علامہ ناصرسعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خلقت خدا پر حکومت اور دیگر ولایات کا مطالبہ کرنا، اور حکومت و مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں۔ بلکہ چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت اور سلامتی کا سوال کرے۔اس لیے کہ کسی کو علم نہیں کہ حکومت ملنے میں اس کے لیے بھلائی ہے یا برائی؟، اور نہ ہی وہ یہ بات جانتا ہے کہ کیا وہ اس ذمہ داری کو نبھانے کی طاقت رکھتا ہے یا نہیں؟ جب انسان حکومت کا طلبگار ہوتا ہے ، اور اس کے حصول کے لیے حرص کرتا ہے تو اسے اس کے نفس کے سپرد کردیا جاتا ہے، اور جب انسان کو اس کے نفس کے سپرد کردیا جائے تو نہ ہی اسے توفیق ملتی ہے ، اور نہ ہی اس کے امور سیدھی راہ پر چل سکتے ہیں، اورنہ ہی ان امور کے نبھانے کے لیے اس کی کوئی مدد کی جاتی ہے۔ اس لیے کہ حکومت طلب کرنے میں دو ممنوع چیزوں کے متعلق خبر دی گئی ہے: ۱۔ دنیا اور حکومت کے حصول پر حرص: اور حرص کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کے
Flag Counter