Maktaba Wahhabi

289 - 566
’’ تم میں سے کوئی انسان اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لے کر آیا ہوں۔‘‘ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ کچھ ایسی بھی خواہشات ہیں جو کہ قابل تعریف اور محمود ہیں، اور یہ وہ خواہشات ہیں جو کہ شریعت مطہرہ کے تابع ہوں۔ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ جب بدر کا دن تھا ، تو صحابہ کرام نے دشمنوں کو قید کر لیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت ابو بکر اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا: تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو سیّدنا ابوبکر نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! وہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے لوگ ہیں میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فدیہ وصول کر لیں اس سے ہمیں کفار کے خلاف طاقت حاصل ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ اللہ انھیں اسلام لانے کی توفیق عطا فرما دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! میری وہ رائے نہیں جو ابوبکر کی رائے ہے، بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ انھیں ہمارے سپرد کر دیں تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ عقیل کو علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کریں، اور میرے رشتہ داروں میں سے ایک کا نام لیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں کیونکہ یہ کفر کے پیشوا اور سردار ہیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے۔‘‘[1] یہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کہ سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قول کی طرف مائل ہوئے۔ اس لیے کہ آپ اسی میں اسلام کے لیے مصلحت سمجھتے تھے۔ یہ ایک محمود ، قابل تعریف اور
Flag Counter