Maktaba Wahhabi

271 - 566
ہیں، اور جوکوئی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے ، وہ انتہائی تنگی کی زندگی بسر کرتا ہے، لوگ اسے نا پسند کرتے ہیں اور وہ لوگوں کو نا پسند کرتا ہے۔ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ اپنے نفسوں کو خواہشات کی پیروی سے روک کر رکھو۔ بے شک خواہشات کی پیروی شر کے آخری درجہ کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے۔ بے شک حق بات وزنی اور کڑوی ہوتی ہے اور باطل خفیف اور من پسند ہوتا ہے۔ کسی گناہ کا ترک کردینا اس پر توبہ کرکے اس کا علاج کرنے سے بہتر ہے، اور بیشتر اوقات نظر انسان کے دل میں شہوت کے بیج بوتی ہے، اور ایک گھنٹے کی شہوت پرستی ایک لمبے زمانہ کے لیے حزن و ملال کا سبب بنتی ہے۔‘‘[1] سیّدنا ابو بکر الوراق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ جب خواہشات نفس غالب آجائیں تو دل سیاہ ہو جاتا ہے، اور جب دل میں سیاہ ہو جائے تو انسان کا سینہ تنگ ہوجاتاہے۔ جب انسان کا دل تنگ ہو جائے تو پھر اس کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں۔ جب اخلاق خراب ہوجائیں تو لوگ اس سے بغض رکھتے ہیں۔ جب لوگ اس سے بغض رکھیں تو وہ بھی لوگوں سے بغض رکھتا ہے۔ ‘‘[2] پھر جب انسان بڑا ہوجاتا ہے ، اور وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے۔ تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کی برائیوں کا سبب اس کی خواہش پرستی ہے۔ شاعر کہتا ہے: مَأٓرِبُ کَانَتْ فِي الشَّبَابِ لِأَہْلِہَا عَذَابٌ ، فَصَارَتْ فِي الْمَشِیْبِ عَذَابًا ’’وہ ضروریات اور خواہشات جو کہ جوانی میں خواہش کرنے والوں کو بڑی میٹھی
Flag Counter