Maktaba Wahhabi

256 - 566
کے علاوہ دیگر شرعی امور میں اسی طرح ان کی تربیت کرتے۔ سیّدنا ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’ ایک صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی ایک بستی میں آدمی بھیجا جو یہ اعلان کررہا تھا: ’’ تم میں سے جس نے افطار کی حالت میں صبح کی ہو، اسے چاہیے کہ باقی کا دن کھانے پینے سے رکا رہے ، اور جس نے روزہ کی حالت میں صبح کی ہو ، اسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے۔‘‘ آپ فرماتی ہیں: ’’ ہم اس کے بعد روزہ رکھا کرتے تھے، اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھوایا کرتے تھے۔‘‘ اور ان بچوں کے لیے مٹی کے کھلونے بنایا کرتے تھے۔ جب ان میں سے کوئی ایک بھوک کی وجہ سے کھانے کے لیے روتا تو ہم اسے وہ کھلونا دیتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔‘‘[1] بچوں کی تربیت اس طرح کی جائے کہ ان کی ہر خواہش پوری ہو تو اس سے نہ صرف ان کا دینی نقصان ہوتا ہے ، بلکہ دنیاوی امور کے لیے بھی ایسی تربیت نقصان دہ ہے۔ بسا اوقات اہل خانہ کو کوئی دنیاوی مصیبت یا پریشانی لاحق ہوتی ہے؛ جس میں ان کا مال ختم ہوجاتا ہے ، اور ان پر ان کی معیشت تنگ ہوجاتی ہے۔ یا گھر کا کفیل [سربراہ سرپرست ] مر جاتا ہے۔ پھر ایسے وقت میں ایسے بچوں کی خواہشات کیسے پوری کی جائیں گی ؛ او ریہ بچہ اپنے سپنے پورے ہوتے اور خواہشیں بر آتے ہوئے کیسے دیکھ سکے گا؟ پھر جب حالات سخت ہوجاتے ہیں ، یہ بچہ دیکھتا ہے کہ اس کے گھروالے اس کی تمام تر خواہشات کوپورا نہیں کرسکتے۔ خصوصاً اس مرحلہ میں کہ جب انسان نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو آزاد سمجھنے لگتا ہے ، اور وہ اپنا گھر آباد کرنا چاہتا ہو۔ وہ یہ تمنا کر ے گا کہ وہ کوئی کام کرے ، [تاکہ اپنی خواہشات کو پورا کرسکے ،] مگر وہ ایسا نہیں کرسکے گا۔ یہی حال عیش و عشرت میں پلنے والی بچیوں کا ہوتاہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایسی
Flag Counter