کتنے ہی نگاہوں کو ڈھیلا چھوڑنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کی نظر واپس آتی ہے تو وہ کسی مقتول کے خون میں لتھڑی ہوئی ہوتی ہے؛ جیسا کہ کہا گیا ہے:
یَا نَاظِرًا مَا أَقْلَعَتْ لحَظَاتُہٗ
حَتّٰی تَشَحَّطَ بَْٰنَہُنَّ قَتِیْـلًا
’’ اے دیکھنے والے ! کیا اس کی نظریں نہیں بھریں گی یہاں تک کہ وہ کسی قتل کو اپنے سامنے خون میں لتھڑا ہوا چھوڑ دیں۔‘‘
اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ نظر کا زخم ہمیشہ دل میں لگتا ہے اور پھر اس کے بعد زخم لگتے ہی جاتے ہیں۔ پھر ان زخموں کی تکلیف بار بار ایسی ہی چیزوں کی طلب کرتی ہے اور کوئی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ شاعر کہتا ہے:
مَا زِلْتَ تُـتْـبِعُ نَظْرَۃً فِيْ نَظْرَۃٍ
فِیْ إِثْرِ کُلِّ مَلِیْحَۃٍ وَمَلِیْحٍ
وَتَظُنُّ ذَاکَ دَوَائُ جُرْحِکَ وَہُوَ فِی التَّـ
تَحْقِیْقِ تََجْرِیْحٌ عَلٰی تَجْرِیْحٍ
فَذَبَحَتْ طَرْفَکَ بِاللِّحَاظِ وَ بِالْبَکَائِ
فَالْقَلْبُ مِنْکَ ذَبِیْحٌ أَیُّ ذَبِیْح
’’ تو برابر نظر کے پیچھے نظر دوڑاتا رہا، اور ہر ایک خوبصورت مرد اور عورت کو دیکھتا رہا، اور تو یہ سمجھتا رہا کہ ایسے دیکھنا تیرے زخموں کی دواء ہے۔ حقیقت میں وہ تو زخم پر ایک اور زخم ہے۔ تو نے نظریں لڑا کر اور رو رو کر اپنی نظر کو ذبح کر ڈالا، اور تیرا دل تو بُری طرح ذبح ہوکر رہ گیا ہے۔ ‘‘
یہ کہا گیا ہے کہ ’’ نظر کو کچھ دیر کے لیے قابو میں کرنا ہمیشہ کے لیے حسرت و الم کی آگ میں جلنے سے بہتر ہے۔ ‘‘[1]
|