Maktaba Wahhabi

92 - 611
کی دھول تلے دب گئی ہو یا ہوسِ دنیا اور خواہشاتِ نفس کی وجہ سے طاقِ نسیان پر رکھی جاچکی ہو، ایسی تمام متروک سنتوں کا احیا ایک اچھے مسلمان کی ذمے داری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے صادر ہونے والے تمام اوامر و احکام پر عمل پیرا ہوں اور جن امور سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، ان تمام کاموں سے مکمل اجتناب و گریز کیا جائے، یہ محض تقاضا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے۔ محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو اپنے سامنے رکھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام خود کیا یا کرنے کا حکم فرمایا اسے اپنالیں، جس کام سے منع فرمایا اس سے باز آجائیں، کسی بھی کام کے فعل و ترک میں من مانی نہ کریں اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی سے تجاوز کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی کا ارتکاب ہرگز نہ کریں، کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، چنانچہ سورۃ الحجرات کی پہلی ہی آیت میں ارشاد ِالٰہی ہے: {یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ} ’’مومنو! اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر وہ کام اور چیز جس سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے براء ت و بیزاری کا اظہار فرمایا ہے، ہر محبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے قولی و عملی بیزاری کا اظہار کرے بعض امور ایسے ہیں کہ نہ صرف نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے براء ت و بیزاری کا اظہار فرمایا ہے، بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دے رکھا ہے مثلاً: ٭ اسلام دشمن کفار سے براء ت و بیزاری اور نفرت و دلی دشمنی رکھنے اور ان سے موالات و دلی محبت نہ کرنے کا قرآنِ کریم میں باقاعدہ حکم دیا گیا ہے، چنانچہ سورت آل عمران (آیت: ۲۸) میں ارشادِ الٰہی ہے: { لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ
Flag Counter